سورة الروم - آیت 46

وَمِنْ آيَاتِهِ أَن يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اس کی نشانیوں میں سے خوشخبریاں دینے والی (١) ہواؤں کو چلانا بھی ہے اس لئے کہ تمہیں اپنی رحمت سے لطف اندوز کرے (٢) اور اس لئے کہ اس کے حکم سے کشتیاں چلیں (٣) اور اس لئے کہ اس کے فضل کو تم ڈھونڈو (٤) اور اس لئے کہ تم شکر گزاری کرو (٥)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٤]ہواؤں کےفائدے:۔ قرآن میں جہاں بھی ارسال الریاح کے الفاظ مذکور ہوں (یعنی میح کا لفظ جمع کے صیغہ میں ہو) تو اس سے مراد خوشگوار ہوائیں ہوتی ہیں اس آیت میں دو قسم کی خوشگوار ہواؤں اور ان کے فوائد کا ذکر کیا۔ ایک باران رحمت سے پہلے دلوں کو فرحت بخشنے والی اور بارش کی بشارت دینے والی ہوائیں، جس سے زمین سیراب ہوتی ہے اور اس بارش میں طرح طرح کے فائدے ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ موافق ہوائیں جو کشتیوں اور جہازوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ پہلے زمانہ میں تو رواج ہی بادبانی کشتیوں کا تھا جن کے چلنے کا زیادہ تر انحصار باد موافق پر ہی ہوتا ہے۔ آج دخانی کشتیوں اور جہازوں کا دور ہے۔ پھر بھی بادموافق اور باد مخالف کا دخانی کشتیوں اور جہازوں پر خاصا اثر پڑتا ہے یہ کشتیاں جو باد موافق کے سہارے چلتی ہیں ان میں تم سفر ہی نہیں کرتے بلکہ اپنا تجارتی سامان بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں لے جاکر خوب نفع کماتے ہو۔ یہ ہوائیں تو اللہ ہی بھیجتا ہے۔ پھر کیا تم اس کی اس نعمت کا شکر بھی ادا کرتے ہو؟اللہ کی ان مہربانیوں کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔