فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
پس قرابت دار کو مسکین کو مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے (١) یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنا چاہتے ہوں (٢) ایسے لوگ نجات پانے والے ہیں۔
[٤٢]مال ودولت میں دوسروں کا حق:۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ قرابتداروں کو، محتاجوں کو اور مسافروں کو بطور صدقہ خیرات کچھ دے دیا کرو۔ بلکہ یوں فرمایا کہ ان کا حق انھیں ادا کرو۔ اور اس لفظ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر دہرایا ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ تمہارے اموال میں ان قرابتداروں اور محتاجوں کا رزق بھی آگیا ہے۔ لہٰذا ان کا حق انھیں ادا کردو۔ اور اس کی ادائیگی میں تمہارا ان پر کچھ احسان نہیں ہوگا۔ بلکہ تمہارے سر سے تمہارا اپنا بوجھ اترے گا۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ قرابت داروں سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے نکاح حرام ہے۔ لیکن اس صراحت کا کوئی خاص فائدہ معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہر شخص اپنے ناطے والوں کو خوب جانتا ہے اور سب رشتہ دار تو حقدار نہیں ہوتے بلکہ وہ حقدار ہیں جو محتاج ہوں۔ گویا سب سے پہلے وہ محتاج حقدار ہیں جو رشتہ دار ہوں، اس کے بعد عام محتاجوں کی باری آلے گی۔ اور مسافر جب راستہ میں محتاج ہوجائے تو وہ بھی حقدار ہے خواہ وہ اپنے گھر سے کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو۔ اب دیکھئے جس معاشرہ میں ہر انسان ان مذکورہ حقداروں کے حق ادا کرتا رہے اس معاشرہ میں کوئی شخص مفلس اور قلاش رہ سکتا ہے؟ [ ٤٣] مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مذکورہ حقوق ادا نہیں کرتے وہ فلاح نہیں پا سکتے۔ فلاح صرف وہ پا سکتے ہیں جو مذکورہ حقداروں کو ان کے حقوق ادا کریں۔ اور اللہ کی رضا مندی کے لئے ادا کریں۔ ان پر احسان رکھ کر نہ کریں، نہ ہی ان سے کسی قسم کے شکریہ یا بدلہ کے طلبگار ہوں۔