وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ
اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ خوب خوش ہوجاتے ہیں اور اگر انھیں ان کے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تو ایک دم وہ محض ناامید ہوجاتے ہیں (١)
[٤٠] انسان کی تنگ ظرفی اور چھچھوراپن :۔ اس آیت میں انسان کی ناشکری، تنگ ظرفی اور چھچھورے پن کا ذکر ہے۔ انسان کی عادت ہے کہ جب اس پر خوشحالی کے دن آتے ہیں تو پھولا نہیں سماتا۔ اس کی وضع قطع چال ڈھال اور گفتگو سے ہی اس کی نخوت کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس وقت وہ نہ اپنے خالق کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ خلق خدا کو اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اسے ہی سرخاب کے پر لگے ہوئے تھے جو اسے یہ عیش و آرام میسر ہے۔ پھر جب کسی وقت اس پر برے دن آجاتے ہیں۔ تو بھی اللہ کی ناشکری ہی کرنے لگتا ہے اور اللہ کی رحمت سے مایوسی کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس مومن کی حالت اس کے بالکل الٹ ہوتی ہے۔ اس پر خوشحالی کے دن آئیں تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس کے آگے پہلے سے زیادہ جھک جاتا ہے۔ اور جب سختی کے دن آئیں تو نہایت صبر و تحمل سے یہ زمانہ گزارتا ہے اور اللہ کا شکر ہر حال میں ادا کرتا ہے۔