وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ
لوگوں کو جب کبھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے رب کیطرف (پوری طرح) رجوع ہو کر دعائیں کرتے ہیں، پھر جب وہ اپنی طرف سے رحمت کا ذائقہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتی ہے۔
[٣٧] جب انسان کو موت سامنے کھڑی نظر آتی ہے یا کوئی اور سخت مشکل پیش آتی ہے تو اس وقت وہ صرف اکیلے اللہ کو پکارتا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ بلا ارادہ اور بے اختیار اللہ کو پکارنے لگتا ہے۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ توحید کی پکار انسان کا فطری داعیہ ہے۔ اور اس کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے۔ [ ٣٨] یعنی جب خوشحالی کے دن آتے ہیں تو اللہ کو تو بھول جاتا ہے اور دوسرے معبودوں یا پیروں، فقیروں کی نذریں نیازیں چڑھنا شروع ہوجاتی ہیں کہ فلاں مصیبت ہم سے فلاں حضرت یا فلاں آستانے کے طفیل دور ہوئی تھی۔ یا یہ خوشحالی ہمیں فلاں حضرت کی نظر کرم کی وجہ سے ملی ہے۔