فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں (١) اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (٢) اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں (٣) یہی سیدھا دین ہے (٤) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (٥)
[٣٠] یعنی جب یہ بات واضح ہوچکی کہ مشرک اپنے حق میں ایسی تقسیم بات گوارا نہیں کرتے، پھر بھی اگر اللہ کی مخلوق کو اس کا شریک بنا ڈالیں تو اس سے بڑی دھاندلی کوئی نہیں ہوسکتی۔ تو آپ کو چاہئے کہ ان مشرکوں کی لغویات پر ہرگز توجہ نہ دو اور دوسرے تمام مذاہب سے اپنی توجہ ہٹا کر صرف دین اسلام یا خالص اللہ ہی کی عبادت کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ [ ٣١] ہربچہ اصل فطرت(اسلام)پرپیداہوتاہے:۔ یعنی یہ بات ہر انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ اس کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اور وہ اس کا بندہ اور غلام ہے۔ لہٰذا اسے صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین خواہ اسے یہودی بنا لیں یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور ایک روایت میں ہے کہ کسی غزوہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشرکوں کے بچوں کو بھی مار ڈالا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا۔ تم نے بچوں کو کیوں مار ڈالا۔ انہوں نے جواب دیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ مشرکوں کی اولاد تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اب جو تم میں عمدہ مسلمان ہیں کیا وہ مشرکوں کی اولاد نہیں ہیں؟‘‘ ہرانسان میں قبول حق کی استعدادموجودہےاور یہی اللہ کی فطرت ہے:۔ان احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت اصلی پر اس کے والدین یا ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے اور غلط ماحول میں وہ فطرت اصلیہ دب جاتی ہے۔ اسی دبی ہوئی فطرت سے ماحول کے دباؤ کو زائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء کو بھیجتا اور کتابیں نازل فرماتا ہے۔ بالفاظ دیگر ہر انسان کی فطرت میں قبول حق کی استعداد رکھ دی گئی ہے اور اسی لئے اسے قبول حق کا مکلف بھی بنایا گیا ہے۔ مثلاً اگر فرعون یا ابو جہل کی فطرت میں یہ استعداد اور صلاحیت ہی موجود نہ ہوتی تو انھیں حق کی طرف دعوت دینا ہی بے معنی ہوتا۔ [ ٣٢] اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ معبود صرف اللہ تعالیٰ ہے اس کے ساتھ دوسروں کو بھی معبود نہیں بنایا جاسکتا۔ اور انسان عبد اور غلام ہے۔ اسے کسی طرح یہ سزاوار نہیں وہ اللہ کا نافرمان اور سرکش ہوجائے یا خود ہی معبود بن بیٹھے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جس جاندار کو جس حال میں پیدا کیا ہے اسے اسی حال میں رہنے دینا چاہئے۔ یعنی جانوروں کے بچے تندرست اور صحیح شکل و صورت پر پیدا ہوتے تھے تو مشرکین جن جانوروں کو بتوں کے نام پر وقف کرتے ان کے کان چیر دیتے تھے۔ علاوہ ازیں بچوں کے سر پر کسی کے نام کی چوٹی رکھنا، داڑھی منڈانا، خوبصورتی کی خاطر جسم کو گودنا یا گدوانا اور اس میں نیلا داغ دینا یا دانتوں میں مصنوعی طریقوں سے خلا پیدا کرنا سب اسی ضمن میں آتا ہے۔ [ ٣٣] یہ سیدھا دین کیا ہے؟ چند موٹی موٹی اور سیدھی سادی باتیں جنہیں سب مذاہب والے یکساں تسلیم کرتے ہیں اور وہ باتیں یہ ہیں۔ اللہ ہی سب کا خالق ہے مالک ہے اور حاکم ہے۔ وہ اپنی ذات میں یکتا ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ اس کا سب پر زور رہتا ہے۔ اس پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ لہٰذا اسی کی تسبیح کرنا یا نام جپنا بچاہئے۔ اسی طرح کسی کے جان ومال کو نقصان پہنچانا، کسی کی عزت پر حملہ کرنا یا تہمت لگانا، دوسروں سے دغا فریب کرنا سب برا سمجھتے ہیں۔ اور سچ بولنا، غریب پر ترس کھانا، حقدار کو اس کا حق پورا ادا کرنا سب ہی اسے بہتر سمجھتے ہیں اور اس کی تلقین کرتے ہیں۔ یہی سچا دین ہے جسے ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے۔ اور انہی فطرت امور کو پیغمبر یاد دلاتے رہے ہیں۔