وَمِنْ آيَاتِهِ أَن تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ۚ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنتُمْ تَخْرُجُونَ
اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں، پھر بھی جب وہ تمہیں آواز دے گا صرف ایک بار کی آواز کے ساتھ ہی تم سب زمین سے نکل آؤ گے (٢)
[٢٣]ستاروں کی گردش پرکنٹرول کرنے والی ہستی کاوجوب:۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں آسمان اور زمین کا ذکر کیا تو اس سے مراد کائنات کا نظام ہوتا ہے۔ جس میں لاتعداد اجرام فلکی محو گردش ہیں۔ اور موجودہ نظریہ کے مطابق ہماری زمین اور چاند اور کئی دیگر سیارے سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ ہر سیارے کی کشش ثقل اسے ایک مخصوص مقام پر جکڑے ہوئے ہے۔ مگر بات صرف اتنی نہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج ہی سب سے بڑا ستارہ اور سیارہ ہے۔ لہٰذا اس کی کشش ثقل یا قوت جاذبہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ہر سیارہ کو اپنی طرف کھینچ لے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کوئی ایسی مقتدر اور قادر مطلق ایسی ہستی موجود ہو جو باوجود قوت جاذبہ کی کشش کے ان سیاروں کو اپنے اپنے مدارات پر قائم رکھ سکے کوئی سبب طبیعی ایسا نہیں بتلایا جاسکتا جس نے تمام کواکب کو کھلی فضا میں جکڑ بند کردیا ہے کہ وہ سب سورج کے گرد چکر لگانے میں ہمیشہ معین مدارات پر ایک خاص حیثیت میں بھی حرکت کریں جس میں کبھی تخلف نہ ہو۔ پھر کواکب کی حرکات اور درجات سرعت میں ان کی اور سورج کی درمیانی مسافت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو دقیق تناسب اور عمیق توازن قائم رکھا گیا ہے کوئی سبب طبیعی نہیں جن سے ان منظم و مربوط سیاروں کو وابستہ کرسکیں۔ ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ سارا نظام کسی ایسے زبردست حکیم و علیم کے تحت ہے جو ان تمام اجرام سماویہ کے مواد اور ان کی ماہیت سے پورا واقف ہے وہ جانتا ہے کہ کسی مادہ کی کس قدر مقدار سے کتنی قوت جاذبہ صادر ہوگی اس نے اپنے زبردست اندازہ سے کواکب اور سورج کے درمیان مختلف مسافتیں اور حرکت کے مختلف مدارج مقرر کئے ہیں تاکہ ایک دوسرے سے تصادم اور تزاحم نہ ہو اور سارا عالم ٹکرا کر تباہ نہ ہوجائے۔ [ ٢٤] اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسرافیل کے صور پھونکنے کو اپنی پکار سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی جتنے انسان مرچکے یا قیام قیامت تک مریں گے۔ سب اللہ کی ایک پکار پر اپنی اپنی قبروں سے زندہ ہو کر میدان محشر کی طرف چل کھڑے ہوں گے۔