سورة الروم - آیت 21

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں (١) تاکہ تم آرام پاؤ (٢) اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی (٣) یقیناً غورو فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٨] مرداورعورت دونوں ایک دوسرے کے طالب بھی ہیں اورمطلوب بھی:۔یعنی مٹی کے پتلے سے ہی اس کا جوڑا پیدا کرتا ہے جو انسانیت کے لحاظ سے ایک ہی جنس ہے۔ لیکن جسمانی ساخت کے لحاظ سے یہ دو قسمیں ہیں۔ جو دونوں ایک دوسرے کے طالب بھی ہیں اور مطلوب بھی۔ مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ اور دونوں میں ایک دوسرے کے لئے اس قدر کشش رکھ دی کہ وہ ایک دوسرے سے الگ رہ کرسکون حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ پھر اللہ تعالیٰ کسی جوڑے کو لڑکے ہی عطا کرتا جاتا ہے اور کسی کو لڑکیاں ہی لڑکیاں اور کسی کو ملی جلی اولاد دیتا ہے مگر نوع انسانی پر کبھی کوئی ایسا دور نہیں آیا کہ دنیا میں مرد اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ انھیں بیویاں نہ مل سکیں اور یا عورتیں اس کثیر تعداد میں پیدا ہوجائیں اور مردوں کی تعداد ان کے مقابلہ میں اتنی کم ہو کہ عورتوں کو کوئی خاوند ہی میسر نہ آئے۔ مردوں اورعورتوں کی پیدائش میں ایساتناسب جوبقائے نوع کےلیےضروری ہے:۔ گویا مرد و عورت کی تخلیق میں بھی اللہ تعالیٰ اس تناسب کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ جو بقائے نوع کے لئے ضروری ہے۔ پھر مرد اور عورت کے اسی جذبہ کے نتیجہ میں ہی بقائے نسل انسانی کا راز مضمر ہے۔ اسی سے خاندان اور قبیلے بنتے ہیں اور تمدن اور معاشرت کی داغ بیل پڑتی ہے۔ پھر ان زوجین (میاں، بیوی) میں اس قدر محبت رکھ دی کہ وہ ایک دوسرے پر فنا ہونے کو تیار ہوتے ہیں اور پیدا ہونے والی اولاد کے حق میں دونوں شفیق اور رحیم ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہی احساسات و جذبات ان دونوں میں اس حد تک پیدا ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے مقدس رشتہ ازدواج کو تازیست نباہنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ اب ذرا غور کیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ زوجین میں یہ جذبات و احساسات پیدا نہ کرتا تو کیا زمین کی آبادی یا نسل انسانی کی بقا ممکن تھی۔ اور کیا یہ کام اللہ کے سوا کوئی دوسرا الٰہ کرسکتا ہے؟ یا بے جان، بے شعور اور اندھے مادے کے اتفاقات سے یہ ممکن ہے کہ وہ ان حکمتوں اور مصلحتوں کا لحاظ رکھ سکے؟