فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ
چند سال میں ہی، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ اس روز مسلمان شادمان ہوں گے۔
[١] سوره روم میں دوبہت بڑی پیشن گوئیاں :۔سورۃ روم کی ان ابتدائی آیات میں دو ایسی پیشین گوئیاں کی گئی ہیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی رسالت کی حقانیت پر زبردست دلیل ہیں۔ ان میں پہلی پیشین گوئی یہ ہے کہ اگر آج روم شکست کھا گیا ہے تو چند ہی سالوں میں روم پھر ایران پر غالب آجائے گا۔ اور دوسری پیشین گوئی یہ تھی کہ اگر آج مسلمان مشرکین مکہ کے ہاتھوں مظلوم و مقہور ہیں۔ تو ان کو بھی اسی دن مشرکین مکہ پر غلبہ حاصل ہوگا جس دن روم ایران پر غالب آئے گا اور قرآن نے یہ دونوں پیشین گوئیاں ایسے وقت میں بیان کیں جبکہ ان پیشین گوئیوں کے پورا ہونے کے دور دور تک کہیں آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جس زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت عطا ہوئی (٦١٠ ء میں) اس وقت عرب کے اطراف میں دو بڑی طاقتیں Super Power موجود تھیں۔ ایک روم کی عیسائی حکومت جو دوباتوں میں مسلمانوں سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں اہل کتاب تھے، دوسرے دونوں آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ لہٰذا مسلمانوں کی ہمدردیاں انھیں کے ساتھ تھیں۔ مسلمانوں کی عیسائی حکومت سے ہمدردی کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی اسی زمانہ میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور قریشیوں نے مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کے باوجود حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور قریش کی سفارت کو بری طرح ناکام ہو کر وہاں سے واپس آنا پڑا تھا۔ اور دوسری ایران کی حکومت جو دو وجوہ سے مشرکین مکہ سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں مشرک تھے۔ ایرانی دو خداؤں کے قائل اور آتش پرست تھے اور مشرکین بت پرست تھے اور دوسرے یہ کہ دونوں آخرت کے منکر تھے۔ انہی وجوہ کی بنا پر مشرکین مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش ٥٧٠ ء میں ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت ٦١٠ ء میں عطا ہوئی تھی۔ روم اور ایران میں جنگ ٦٠٢ ء سے شروع ہو کر ٦١٤ ء تک جاری رہی اور یہ جنگی خبریں مکہ بھی پہنچتی رہتی تھیں۔ جب ایران کی فتح کی کوئی خبر آتی تو مشرکین مکہ بغلیں بجاتے اور اس خبر کو اپنے حق میں نیک فال قرار دیتے تھے اور کہتے کہ جس طرح ایران نے روم کا سر کچلا ہے ایسے ہی ہم بھی کسی وقت مسلمانوں کا سر کچل دیں گے۔ اور واقعہ بھی یہ تھا کہ ٦١٠ ء کے بعد یہ جنگ دو ملکوں کی جنگ نہ رہی تھی بلکہ اب یہ مجوسیت اور عیسائیت کی جنگ بن چکی تھی۔ ٦١٤ ء میں خسرو پرویز نے روم کو ایک مہلک اور فیصلہ کن شکست دی۔ شام ، مصر اور ایشائے کوچک کے سب علاقے رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔ سیدنا ابوبکر اورمشرکوں میں شرط:۔ ہرقل قیصر روم کو ایرانی فوجوں نے قسطنطنیہ میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور کردیا اور رومیوں کا دارالسلطنت بھی خطرہ میں پڑگیا۔ بڑے بڑے پادری قتل یاقید ہوگئے۔ بیت المقدس عیسائیوں کی سب سے زیادہ مقدس صلیب بھی ایرانی فاتحین اٹھا لے گئے اور قیصر روم کا اقتدار بالکل فنا ہوگیا۔ یہ خبر مشرکین مکہ کے لئے بڑی خوش کن تھی انہوں نے مسلمانوں کو چھیڑنا شروع کردیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے کہ جس طرح ایران نے روم کو ختم کر ڈالا ہے ایسے ہی ہم بھی تمہیں مٹا ڈالیں گے۔ یہ آپ کی نبوت کا پانچواں سال تھا۔ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے۔ ایسے ہی حالات میں سورۃ روم کی یہ آیات نازل ہوئیں۔ اگرچہ بظاہر اہل روم کی فتح کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے اور مشرکین مکہ ان آیات کا بھی تمسخر اڑا رہے تھے، تاہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی پیشین گوئی کی بنا پر مشرکین سے شرط باندھ لی کہ اگر بضع کی زیادہ سے زیادہ مدت (بضع تین سے نو تک کے لئے آتا ہے) یعنی ٩ سال تک رومی غالب نہ آئے تو میں سو اونٹ تم کو دوں گا ورنہ اتنے ہی اونٹ تم مجھے دو گے۔ اس وقت تک شرط حرام نہیں ہوئی تھی۔ اب حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ قیصر روم نے اندر ہی اندر یہ تہیہ کرلیا کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کو ضرور واپس لے گا۔ ایک طرف تو اس نے اللہ کے حضور منت مانی کہ اگر اللہ نے اسے ایران پر فتح دی تو حمص سے پیدل چل کر ایلیا (بیت المقدس) پہنچوں گا۔ دوسری طرف نہایت خاموشی کے ساتھ ایک زبردست حملہ کی تیاریاں شروع کردیں۔ ٦٢٣ ء میں اس نے اپنی مہم کا آغاز آرمینیا سے کیا اور آذربائیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ کو تباہ کردیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٦٢٢ ء میں ہجرت کرکے مدینہ آئے اور ٦٢٣ ء میں مسلمانوں نے مشرکین مکہ کو بدر کے مقام پر شکست فاش دی۔ اسی دن مسلمانوں کو یہ خبر مل گئی کہ روم نے ایران کو شکست فاش دے کر اپنا علاقہ آزاد کر الیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو تو دوہری خوشیاں نصیب ہوگئیں ان مشرکین مکہ کو دوہری ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔ قرآن کی اس عظیم الشان اور محیرالعقول پیشین گوئی کی صداقت کا مشاہدہ کرکے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مشرکین مکہ سے سو اونٹ وصول کئے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق صدقہ کردیئے گئے۔