وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ (١) پھر کدھر الٹے جا رہے ہیں (٢)
[٩٣] یہ خطاب صرف مہاجرین کو ہی نہیں بلکہ اس خطاب میں سب مشترک ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ زمین و آسمان اور سورج اور چاند، سب کو پیدا کرنے والا اور انھیں اپنے اپنے کام پر لگانے والا اللہ ہے۔ اور انسان کی تمام ضروریات زندگی اسی نظام سے وابستہ ہیں۔ انھیں ضروریات میں سے ایک ضرورت کھانے پینے کی اور ذریعہ معاش کی ضرورت ہے۔ تو مسلمان جہاں بھی ہجرت کرکے جائیں گے۔ یہ سارا نظام وہاں بھی موجود ہوگا اور اللہ تمہیں وہاں بھی ایسے ہی روزی مہیا کرے گا جیسے یہاں کر رہا ہے لہٰذا اس پر توکل کرو۔ اور اس خطاب کا روئے سخن مشرکین مکہ کی طرف سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہاری زندگی اور زندگی کا بقا کا سارا سامان تو اللہ نے مہیا کیا ہے۔ پھر تم اپنے معبودوں کو اللہ کے شریک اور مدمقابل کیسے ٹھہراتے ہو؟ یہ کہاں سے تمہیں عقل کا پھیر لگ جاتا ہے؟