فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا (١) ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا (٢) اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا (٣) اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا (٤) اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا (٥) اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے (٦)۔
[٦١] یعنی ہر قوم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دے کر صفحہ ہستی سے چلتا کیا اور زمین کو ان لوگوں سے پاک کردیا۔ ان میں پتھروں کی بارش کا عذاب صرف قوم لوط پر آیا تھا۔ اور قوم عاد پر جو عذاب آیا تھا وہ تیز آندھی کی شکل میں تھا جس میں چھوٹے چھوٹے پتھر کنکر بھی ملے ہوئے تھے۔ [٦٢] قوم ثمود (حضرت صالح علیہ السلام کی قوم) اور اہل مدین (حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ) پر یہی عذاب آیا تھا۔ [٦٣] یعنی قارون اور اس کے خدام کو پورے خزانوں سمیت، جس کا قصہ سورۃ قصص میں پوری تفصیل سے گزر چکا ہے۔ [٦٤] یعنی قوم نوح کو اور فرعون اور آل فرعون کو۔ [٦٥] ان سب قوموں کی طرف ہم نے نبی بھیجے تاکہ وہ انھیں ان کی گمراہیوں سے مطلع کریں۔ لیکن ان لوگوں نے نبیوں کو جھوٹا سمجھا۔ اور انھیں گمراہیوں پر اور بھی زیادہ ڈٹ گئے۔ اللہ کی فرمانبرداری کے بجائے انبیاء کے دشمن بن گئے اور انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دینا شروع کردیں۔ پھر جب ہماری طرف سے پوری طرح حجت قائم ہوگئی تو اس وقت ہم نے انھیں تباہ کیا اور اس تباہی کے ذمہ دار وہ خود تھے، ہم نہیں تھے۔