وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَد تَّبَيَّنَ لَكُم مِّن مَّسَاكِنِهِمْ ۖ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ
اور ہم نے عادیوں اور ثمودیوں کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں (١) اور شیطان نے انھیں انکی بد اعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انھیں راہ سے روک دیا تھا باوجودیکہ یہ آنکھوں والے اور ہوشیار تھے (٢)۔
[٥٨] قوم عاد (اولیٰ) کا وطن پورا جنوبی عرب تھا یعنی یمن، حضرموت اور احقاف کا علاقہ اور ثمود کا علاقہ شمالی عرب تھا۔ ان دونوں علاقوں کی تاریخ سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا۔ پھر وہ ان کی تباہ شدہ بستیاں دیکھتے بھی رہتے تھے۔ [٥٩]عاد وثمود، دیوانہ بکارخویش ہشیار:۔ یعنی وہ دنیا کے کاموں میں بڑے ہوشیار اور فنکار تھے۔ اپنے اپنے دور کی ترقی یافتہ اور مہذب قومیں تھیں۔ سمجھدار تھے۔ طاقتور تھے اور بالخصوص سنگ تراش کے فن یدطولی رکھتے تھے۔ لیکن اللہ کے معاملہ میں شیطان نے ان کی مت مار دی تھی۔ جیسا کہ آج کل عیسائی اقوام کے محققین جب تحقیق و تنقید کے میدان میں اترتے ہیں تو بال کی کھال اتار کے رکھ دیتے ہیں۔ مگر عقیدہ تثلیث کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے کا وقت آتا ہے تو بات گول کر جاتے ہیں اور ان کی عقلیں جواب دے جاتی ہیں۔ پھر بھی اسی پر اصرار کرتے جاتے ہیں یا جیسے آج کل کے ماہرین فلکیات اس جو بڑی سے بڑی طاقتور دوربینوں سے اجرام فلکی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان میں بعض علمائے ہیئت کی تو ایسے مت ماری جاتی ہے کہ ایک طرف تو کائنات کے اس مربوط و منظم نظم پر حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہیں مگر دوسری طرف یہ سب کچھ اتفاقات کا نتیجہ قرار دینے لگتے ہیں۔ اور لطف یہ کہ اپنے انہی موہوم قیاسات کو علمی تحقیق کے خوبصورت نام سے دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ عاد اور ثمود کے محققین بھی کچھ ایسے ہی لوگ تھے۔