قَالَ إِنَّ فِيهَا لُوطًا ۚ قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَن فِيهَا ۖ لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ
(حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے کہا اس میں تو لوط (علیہ السلام) ہیں، فرشتوں نے کہا یہاں جو ہیں انھیں بخوبی جانتے ہیں (١) لوط (علیہ السلام) کو اور اس کے خاندان کو سوائے اس کی بیوی کے ہم بچالیں گے، البتہ وہ عورت پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے (٢)
[ ٤٩] قوم لوط پرعذاب لانے والے فرشتوں سے ابراہیم علیہ السلام کی بحث:۔ اس خوشخبری کے بعد فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتلایا کہ دراصل ایک اور مہم پر بھیجے گئے ہیں۔ وہ جو سامنے بستی نظر آرہی ہے۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اسے تباہ و برباد کردیں۔ کیونکہ اس بستی کے باشندے اللہ کے نافرمان سرکش لوگ ہیں۔ فرشتوں نے جس طرف اشارہ کیا وہ وہی سدوم کا علاقہ تھا۔ جہاں خود حضرت ابراہیم نے حضرت لوط کو تبلیغ کے لئے بھیجا تھا۔ لہٰذا وہ فوراً بول اٹھے۔ وہاں تو لوط بھی موجود ہیں۔ کیا تم اس کے وہاں ہوتے ہوئے اس بستی کو تباہ و برباد کردو گے۔ اس آیت میں تو اتنی ہی بات مذکور ہے۔ لیکن ایک دوسرے مقام پر ﴿یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ﴾ (۱۱:۷۴)کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں سے پوری طرح بحث کی تھی کہ لوط علیہ السلام کے علاوہ فلاں ایمان دار بھی وہاں موجود ہے اور فلاں بھی۔ تو ان لوگوں کے ہوتے ہوئے تم کیونکر اس بستی کو ہلاک کردو گے؟ فرشتوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ ہمیں پوری طرح معلوم ہے کہ وہاں کون کون ایماندار موجود ہے۔ ہم پہلے ان کو بچانے کی صورت بنائیں گے۔ تب ہی اس بستی کو غارت کریں گے۔ البتہ لوط کے گھر والوں میں سے حضرت لوط کی بیوی بھی اس عذاب سے تباہ ہوگی۔ کیونکہ وہ اپنے خاوند کی وفادار نہیں بلکہ خائن ہے۔ فرشتوں کے اس جواب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ اب اس بستی کی شامت آکے ہی رہے گی۔ دراصل وہ اپنی طبیعت کی نرمی کی وجہ سے چاہتے یہ تھے کہ اس ظالم قوم کو سنبھلنے کے لیے کچھ مزید مہلت مل جائے۔ مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ کیونکہ عذاب الٰہی کا نزول طے ہوچکا تھا۔