وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
اور ہم نے انھیں (ابراہیم کو) اسحاق و یعقوب (علیہما السلام) عطا کئے اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اولاد میں ہی کردی (١) اور ہم نے دنیا میں بھی اسے ثواب دیا (٢) اور آخرت میں تو وہ صالح لوگوں میں سے ہے (٣)۔
[ ٤٢]سیدناابراہیم علیہ السلام پر اللہ کی مہربانیاں:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جتنے بھی ابتلاء کے دور آئے ان سب میں آپ کامیاب رہے جب ہجرت کی تو اس وقت تک آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ گھر بار اور وطن اور عزیز و اقارب چھوڑنے پر اللہ نے آپ کو اولاد عطا فرما دی کہ دل بہلا رہے۔ مزید یہ انعام فرمایا کہ نبوت آپ ہی کے خاندان سے مختص فرما دی۔ آپ کے بعد جتنے بھی نبی آئے آپ ہی کی نسل سے آئے۔ اسی لئے آپ کو ابو الانبیاء بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے صرف آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے مبعوث ہوئے باقی سب حضرت اسحاق علیہ السلام بلکہ ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے تھے۔ جنہیں اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔ [ ٤٣] دنیا میں ایک تو یہ اجر دیا کہ نبوت کو ان کے خاندان سے مختص کردیا اور دوسرا اجر یہ دیا کہ آپ کو تمام لوگوں کا امام اور پیشوا بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ یہودیوں، عیسائیوں، مسلمانوں بلکہ اور بھی کئی مذاہب کے ہاں یکساں محترم ہیں حتیٰ کہ مکہ کے مشرکین بھی اپنے آپ کو انہی سے منسوب کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی آپ پر مزید مہربانی یہ تھی کہ رہتی دنیا تک آپ کا ذکر خیر ان میں چھوڑ دیا۔ امت محمدیہ میں اس ذکر خیر کی صورت یہ ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنی ہر نماز میں آپ پر دورد پڑھے۔ اور آخرت میں آپ کو اعلیٰ درجہ کے صالحین (جو انبیائے اولوالعزم کی جماعت ہے) میں شامل کیا۔