وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ ۖ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۖ وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ
اور جو لوگ کل اس کے مرتبہ پر پہنچنے کی آرزو مندیاں کر رہے تھے وہ آج کہنے لگے کہ کیا تم نہیں دیکھتے (١) کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور تنگ بھی؟ اگر اللہ تعالیٰ ہم پر فضل نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا (٢) کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ناشکروں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی (٣)۔
[١١١] قارون کا یہ انجام دیکھ کر ان دنیا پر فریفتہ ہونے والوں کی آنکھیں کھل گئیں جو کل یہ سمجھ رہے تھے کہ قارون کس قدر خوش نصیب آدمی ہے۔ اور ان پر حقیقت واضح ہوگئی کہ جس شخص کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہو۔ ضروری نہیں کہ اللہ بھی اس پر خوش ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو قارون کبھی اس عذاب الٰہی کا شکار نہ ہوتا۔ اور دوسری بات انھیں معلوم ہوئی کہ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو مال و دولت کس قدر بھی زیادہ ہو کسی کام نہیں آسکتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات یہی مال و دولت عذاب الٰہی کو کھینچ لانے کا سبب بن جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کی خوش نصیبی کا معیار مال و دولت ہرگز نہیں ہوسکتا۔ رزق کی کمی بیشی اور چیز ہے اور انسان کی فلاح اور خوش نصیبی اور چیز ہے۔ اور یہ اچھا ہوا کہ ہماری آرزو کرنے کے باوجود اللہ نے ہمیں مال و دولت کی فراوانی عطا نہیں کی ورنہ ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو قارون کا ہوا ہے۔