وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ
ذی علم انھیں سمجھانے لگے کہ افسوس! بہتر چیز تو وہ ہے جو بطور ثواب انھیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں (١) یہ باتیں انہی (٢) کے دل میں ڈالی جاتی ہے جو صبر کرنے والے ہوں۔
[١٠٨] علم سے مراد علم شریعت ہے۔ یعنی جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آخرت کی کامیابی کے مقابلہ میں دنیا کا سازوسامان جتنا بھی ہو وہ کچھ حقیقت رکھا۔ ایسے عالم لوگوں نے قارون اور اس کے ٹھاٹھ باٹھ پر رہنے والوں سے کہا، تمہاری دنیا سے یہ محبت تمہاری خطرناک بھول غلطی ہے۔ اصل کامیابی دنیا کی نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی اور وہ اجر ہے جو ایماندار نیک لوگوں کو ملے گا۔ [١٠٩]صبر کے مفہوم کی وسعت :۔ یہاں صبر بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اپنے آپ کو صرف حلال کمائی کی پابند بنائے رکھنا بھی صبر ہے۔ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلینا بھی صبر ہے۔ دنیوی جاہ و حشمت کو دیکھ کر اس پر فریفتہ نہ ہونا بھی صبر ہے۔ اور اخروی نجات اور کامیابی کو مطمح نظر بنا کر اپنے آپ کو احکام الٰہی کا پابند بنانا بھی صبر ہے۔ یعنی آخرت کا ثواب اور کامیابی انھیں لوگوں کا نصیب ہوگا جنہوں نے اس دنیا میں صبر، استقلال اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہوگا۔