سورة القصص - آیت 59

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تیرا رب کسی ایک بستی کو بھی اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان کی بڑی بستی میں اپنا کوئی پیغمبر نہ بھیج دے جو انھیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنا دے (١) اور ہم بستیوں کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں جب کہ وہاں والے ظلم و ستم پر کمر کس لیں (٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٢]اعتراض کاتیسراجواب ‘عذاب یاہلاکت کےلیےضابطہ :۔ یہ بھی دراصل کفار مکہ کے اعتراض کا تیسرا جواب ہے ان کا اعتراض یہ تھا کہ اگر ہم ایمان لے آئے تو ہم تو سیاسی اور معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کسی قوم کی تباہی کے متعلق اپنا ضابطہ بیان فرما دیا ہے کہ وہ کیوں آتی ہے اور کب آتی ہے۔ اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ پہلے ہم کسی مرکزی شہر یا صدر مقام میں اپنا رسول بھیجتے ہیں۔ مرکزی مقام کا انتخاب اس لئے کیا جاتا ہے کہ ایک تو ارد گرد کی آبادیوں کا اس سے رابطہ ہوتا ہے دوسرے مرکزی شہر کے لوگ نسبتاًپڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ بات کو جلد سمجھ سکتے ہیں اور دیہاتیوں کی نسبت مہذب بھی ہوتے ہیں۔ پھر یہ رسول اس مرکزی بستی کے لوگوں کو اللہ کے پیغام پہنچاتا ہے اور اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا ہے۔ اب اگر لوگ اس رسول کی دعوت کو قبول نہ کریں اور نافرمانی، تکذیب اور سرکشی کی راہ اختیار کریں تو اس اتمام حجت کے بعد اس بستی کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اہل مکہ! تمہارا یہ خیال ہے کہ اسلام لانے سے تم تباہ ہوجاؤ گے، بالکل غلط ہے۔ بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اس رسول کی بعثت کے بعد اگر تم نے سرکشی اختیار کرلی تو اس صورت میں تمہاری تباہی واقع ہوگی اور اس تباہی کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔