يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
جس دن ہر نفس (شخص) اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اور اپنی کی ہوئی برائیوں کو موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت سی دوری ہوتی۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔
[٣٢] نیکی کرنے کی نسبت برے کاموں سے بچنا زیادہ ضروری ہے:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ابتداء ایک نیکو کار اور ایک بدکردار کا ذکر فرمایا۔ بعد میں صرف بدکردار کی تمنا کا ذکر کیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کی سختیوں اور دوزخ کے عذاب سے بچ جانا ہی اصل کامیابی ہے اور جنت میں داخلہ تو اللہ کا فضل اور انعام ہے جتنا وہ چاہے کسی پر کردے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’میں جس کام سے تمہیں روکوں اس سے رک جاؤ اور جس بات کا حکم دوں اس کو اپنی حسب استطاعت بجا لاؤ‘‘ (تفسیر آیت : فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ) یعنی جب آپ نے برے کام کا ذکر کیا تو یہ نہیں فرمایا کہ جہاں تک ہوسکے برے کاموں سے بچو بلکہ فرمایا ان سے پوری طرح رک جاؤ اور جب نیک کام کا ذکر کیا تو فرمایا جہاں تک تم سے ہوسکے بجا لاؤ۔ اب ایک دوسرے پہلو سے غور فرمائیے جو یہ ہے کہ نیک اعمال بجا لانے کی نسبت برے کاموں کو چھوڑ دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے کتاب و سنت میں نیک اعمال بجا لانے کی نسبت برے کاموں کو چھوڑنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ بعد میں دوبارہ فرمایا : ﴿ وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ﴾ پھر بعد میں فرمایا ﴿وَاللّٰہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ ﴾ گویا اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو برے انجام سے آگاہ کردینا ہی اس کے بندوں پر ترس کھانے کی بہت بڑی دلیل ہے۔