سورة النمل - آیت 44

قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اس سے کہا گیا کہ محل میں چلی چلو، جسے دیکھ کر یہ سمجھ کر کہ یہ حوض ہے اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں (١) فرمایا یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے، کہنے لگی میرے پروردگار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرمانبردار بنتی ہوں۔ (٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٢] دوسراامتحان کےحوض سے:۔ یہ بلقیس کی عقل کا دوسرا امتحان تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے محل کا صحن کچھ اس انداز سے بنوایا تھا جس کے اوپر شیشہ جڑا ہوا تھا۔ لیکن جب کوئی شخص محل میں داخل ہوتا تو اس کا زاویہ نگاہ ایسا ہوتا تھا کہ اسے وہ صحن ایک گہرا پانی کا حوض معلوم ہوتا تھا۔ جس میں پانی لہریں مار رہا ہو۔ اور اس کی کیفیت کچھ ایسی تھی جیسے کسی دور سے دیکھنے والے کو ریت کا تودہ یا سراب ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی نظر آتا ہے۔ آپ نے بلقیس سے فرمایا کہ چلو اب محل میں چلیں۔ بلقیس نے جب صحن کا یہ نظارا دیکھا۔ تو اسے پانی کا گہرا حوض سمجھ کر اپنی پنڈلیوں سے اپنے پائنچے اٹھا لئے۔ تب سلیمان علیہ السلام نے اسے بتلایا کہ پائنچے اوپر چڑھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ پانی کا حوض نہیں بلکہ شیشے کا چکنا فرش ہے۔ گویا وہ اس امتحان میں دھوکا کھا گئی۔ [٤٣] یعنی جس طرح میں نے شیشہ کے صحن کو پانی کا لہریں مارنے والا گہرا حوض سمجھ کر غلطی کھائی ہے۔ اسی طرح میں اور میری قوم سورج کی چمک اور دمک دیکھ کر اسے معبود سمجھنے لگے تو یہ بھی ہماری فاش غلطی اور اپنے آپ پر ظلم تھا۔ [٤٤] ملکہ سباکا ایمان لاناعلیٰ وجہ البصیرت تھا:۔ بلقیس جو اللہ رب العالمین پر ایمان لائی تو یہ علی وجہ البصیرت تھا۔ کئی واقعات پہلے ایسے گزر چکے تھے۔ جن سے اسے یہ یقین ہوتا جارہا تھا کہ سلیمان علیہ السلام واقعی حق پر ہیں اور اللہ کے نبی ہیں اور اس کے مذہب کی بنیاد باطل پر ہے۔ سب سے پہلے تو اس نے خط کے مضمون سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس قسم کا خط بھیجنے والا کوئی عام فرمانروا نہیں ہوسکتا۔ پھر جس نامہ بر کے ذریعہ اسے یہ خط پہنچا تھا وہ بھی ایک غیر معمولی بات تھی۔ اور تحائف کی واپسی سے بھی اس نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ کوئی دنیا دار فرمانروا نہیں نیز یہ کہ وہ کبھی اس کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکے گی۔ پھر تحائف لانے والے وفد نے جو عظیم فرمانروا کے منکسرانہ مزاج اور پاکیزہ سیرت کے حالات بیان کئے تھے تو ان باتوں سے بھی وہ شدید متاثر ہوچکی تھی۔ پھر جب وہ حضرت سلیمان کے پاس پہنچی تو جس تخت کو وہ اپنے پیچھے چھوڑ کر آئی تھی اسے اپنے سامنے پڑا دیکھ کر وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی نبوت کی دل سے قائل ہوچکی تھی۔ اب محل میں داخلہ کے وقت جس چیز نے اسے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ چیز تھی کہ اتنا بڑا فرمانروا جس کے پاس اس سے کئی گناہ زیادہ مال و دولت اور عیش و عشرت کے سامان موجود ہیں وہ اس قدر اللہ کا شکر گزار اور منکسرالمزاج اور متواضع بھی ہوسکتا ہے۔ ان سب باتوں نے مل کر اسے مجبور کردیا کہ وہ حضرت سلیمان کے سامنے اب برملا اپنے ایمان لانے کا اعلان کردے۔ ﴿وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ﴾سےمتعلق عقل پرستوں کی‘تاویل اور ا س کاجواب :۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں بلقیس کے داخل ہونے اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھانے کے بارے میں بھی عقل پرستوں نے بہت سے نامعقول تاویلات پیش فرمائی ہیں۔ مثلاً یہ کہ بلقیس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا نہیں اٹھایا بلکہ اس شیش محل کی دیواروں پر جو کپڑے پڑے ہوئے تھے اس نے وہ اٹھائے تھے اور ﴿لُجَّةٌ﴾ کے معنی گہرا پانی ہی نہیں بلکہ پانی جیسی چمک دمک اور آب و تاب بھی ہے جو اس شیش محل میں پائی جاتی تھی۔ ان نامعقول تاویلات کے تفصیلی تجزیہ کا یہ موقعہ نہیں مختصراً ایک دو باتیں عرض کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ﴾( بلقیس نے اس محل کو دیکھا تو اسے گہرا پانی خیال کیا اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا )گویا محل کے لئے ضمیر مذکر استعمال ہوئی ہے۔ اور دیوار کا لفظ اگرچہ یہاں موجود نہیں تاہم اگر وہ بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے تو وہ بھی مذکر استعمال ہوتا ہے (١٨: ٨٢) لیکن جس کی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھایا گیا اس کے لئے مونث کی ضمیر استعمال ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں محل کی یا کسی بھی کمرے کی چار دیواریں ہوتی ہیں دو نہیں ہوتی جبکہ یہاں تثنیہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ تیسرے یہ کہ ساق کا لفظ پنڈلی یا درخت کے تنہ کے لئے تو آتا ہے دیوار یا ہراس چیز کے نچلے حصہ کے لئے نہیں آتا جو ساری کی ساری ایک جیسی ہو۔ اور یہ معلوم ہی نہ ہوسکے کہ ساق کہاں سے شروع ہوتی ہے۔