وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ
اور جب میں بیمار پڑجاؤں تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے (١)
[٥٦] حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیماری کی نسبت اللہ تعالیٰ کی بجائے اپنی طرف فرمائی تو یہ محض اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اپنی کسر نفسی کی بنا پر ایسا کہا۔ ورنہ بیماری اور شفا سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ اب بیماری اور شفا کے متعلق اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ ہے کہ ہر جاندار کی طبیعت ہی اس کی سب سے بڑی معالج ہوتی ہے۔ بدن میں کسی مقام پر بھی کوئی نقص واقع ہوجائے تو طبیعت فوراً ادھر متوجہ ہوجاتی ہے۔ باہر سے کوئی آفت پڑنے کا خطرہ ہو تو ہر جاندار سے بلا ارادہ ایسی حرکات سرزد ہونے لگتی ہیں۔ جو اس کی اس آفت سے حفاظت کرسکیں اور دوائی کی ضرورت صرف اس وقت پیش آتی ہے جب طبیعت کی مدافعت سے معاملہ بڑھ جائے اور دوائی کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ طبیعت کا مدد کرتی ہے ورنہ اصل معالج طبیعت ہی ہوتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے ہی بنائی ہے علاوہ ازیں دواؤں میں تاثیر اور خاصیت بھی اللہ کی پیدا کردہ ہے پھر کبھی دوا اپنا اثر دکھاتی ہے کبھی بے اثر ثابت ہوتی ہے اور کبھی الٹا اثر دکھاتی ہے اسی لئے کوئی حکیم یا ڈاکٹر یہ بات دعویٰ سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ فلاں مرض کا علاج کرکے شفا دے سکتا ہے۔ بلکہ ہر شخص اس معاملہ میں اپنے عجز کا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے کہ شفا من جانب اللہ ہوتی ہے۔ پھر جب شفا بخشنے میں اللہ کے علاوہ کسی دوسری ہستی کا دخل نہیں تو عبادت میں اللہ تعالیٰ کی سوا کوئی دوسرا کیسے شریک بنایا جاسکتا ہے۔