قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ
انہوں نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں بتوں کی، ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں (١)
[٤٩] لوگوں نے جواب میں کہا کہ تم نے ان سے متعلق نہایت حقارت کے لہجہ میں یہ سوال کیا ہے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک یہ انتہائی قابل احترام چیزیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عجز و نیاز سے سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات کا عقیدہ:۔ پہلے یہ بتلایا جاچکا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم حقیقتاً ستارہ پرست تھی۔ اور وہ سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات کے شدت سے قائل تھے۔ انہوں نے ہر سیارہ کی روح کی ایک تصویر اپنے ذہن میں طے کر رکھی تھی پھر اسی تصویر کے مطابق ان کے مجسمے یا بت بنائے جاتے تھے۔ مثلاً کوئی سورج دیوتا کا مجسمہ تھا تو کوئی چاند دیوی کا۔ اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ جس سیارہ کا وہ مجسمہ ہو اس سیارہ کی روح کا اس سے خاص تعلق ہوتا ہے۔ اور اگر ان بتوں کی پوجا پاٹ کریں گے تو سیاروں کے غضب اور ان کے مضر اثرات سے محفوظ رہیں گے۔ اور یہ سب کچھ ان کا وہم و قیاس ہی تھا۔ جس کے لئے کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔