سورة الشعراء - آیت 42

قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ إِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

فرعون نے کہا ہاں! (بڑی خوشی سے) بلکہ ایسی صورت میں تم میرے خاص درباری بن جاؤ گے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٢]نبی اور جادوگرکے کردارکا تقابل:۔ مقررہ وقت سے پہلے جب تمام جادوگر اطراف و اکناف سے دارالخلافہ پہنچ گئے تو انہوں نے مل کر فرعون سے سوال کیا کہ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو ہمیں کچھ معاوضہ یا انعام و اکرام بھی ملے گا ؟جادوگروں کے اس سوال سے ان کی ذہنیت سامنے آجاتی ہے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں۔ پیٹ کے دھندے کے طور پر کرتے ہیں۔ اس سے بلند ان کا کوئی مطمع نظر ہوتا ہی نہیں۔ جبکہ نبی لوگوں کے معاوضہ سے مطلقاً بے نیاز ہوتا ہے وہ بے لوث ہو کر محض اللہ کی رضا مندی کی خاطر اپنا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ فرعون کی اس وقت جان پر بنی ہوئی تھی۔ جادوگروں کے اس سوال پر فوراً کہنے لگا۔ محض انعام و کرام کی کیا بات کرتے ہو اگر تم کامیاب ہوگئے میں انعام و اکرام کے بدلہ تمہیں بلند مناصب بھی دوں گا اور تم میرے مقربین میں سے ہو گے۔