يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ
یہ تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سرزمین سے ہی نکال دے، بتاؤ اب تم کیا حکم دیتے ہو (١)۔
[٢٧]فرعون کی عیاری:۔ فرعون اگرچہ خود بھی ان نشانیوں سے متاثر ہوچکا تھا تاہم اس نے درباریوں کے ذہن سے یہ اثر زائل کرنے کے لئے یوں کہہ دیا کہ یہ تو بہت بڑا جادوگر معلوم ہوتا ہے۔ اور چاہتا یہ ہے کہ تمہیں اس طرح مرعوب اور دہشت زدہ کرکے تمہیں تمہارے ملک سے نکال دے اور خود اس ملک پر قبضہ جما لے۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ فرعون کی ان دونوں باتوں میں کھلا تضاد ہے پہلی بات تو اس نے درباریوں اور عام لوگوں کو الو بنانے کے لئے کہی تھی کیونکہ جادوگر تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ملک مصر میں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مگر کسی جادوگر میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ جادو کے زور سے کوئی ملک تو بڑی چیز ہے کوئی چھوٹی سی بستی ہی فتح کرکے دکھا دے۔ وہ خود ایک مانگت اور سوالی قسم کا انسان ہوتا ہے۔ جو شعبدے دکھانے کے بعد لوگوں سے اس محنت کی اجرت کا مطالبہ کرتا ہے۔ بھلا کسی جادوگر کی یہ ہمت ہوسکتی ہے کہ وہ فرعون جیسے جابر حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے بات چیت کرے۔ اور دوسری بات فی الواقع حقیقت کے قریب تھی۔ جو فرعون کے منہ سے بے ساختہ نکل گئی تھی۔ اسے فی الواقع یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ شخص واقعی اللہ رب العالمین کا رسول ہے۔ اور اگر میں نے اس کی دعوت کو جھٹلا دیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ موسیٰ غالب آئے گا اور میں مغلوب ہوجاؤں گا مگر یہ بات وہ اپنے درباریوں پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ [٢٨]﴿ تامرون﴾ کا ترجمہ یہاں عموماً ” کیا حکم دیتے ہو یا کیا حکم کرتے ہو؟“ کیا جاتا ہے جو میرے خیال میں درست نہیں۔ بھلا فرعون جیسا خود سر اور اپنے آپ کو رب کہلانے والا فرمانروا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اپنے درباریوں سے ایسا کہہ سکتا تھا امر کا لفظ مشورہ دینے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ امرته عن امری کا معنی ہوگا۔ میں نے اپنے کام کے متعلق اس سے مشورہ کیا( منتہی الادب نیز مفردات امام راغب ) چنانچہ اسی بدحواسی کے عالم میں فرعون نے اپنے درباریوں سے پوچھا ” کہ اس صورت حال میں اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟“