لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی وہ کرے وہ اس کے لئے اور جو برائی وہ کرے وہ اس پر ہے، اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔
[٤١٦]جزااورسزاکاکلیہ :۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ اپنے قانون سزا و جزا کا کلیہ بیان فرما دیا۔ یعنی جو کام کسی انسان سے استطاعت سے بڑھ کر ہیں ان پر انسان سے باز پرس نہیں ہوگی، باز پرس تو صرف اسی بات پر ہوگی جو انسان کے اختیار اور استطاعت میں ہو اور جہاں انسان مجبور ہوجائے وہاں گرفت نہ ہوگی۔ مگر اس اختیار، استطاعت اور مقدرت کا فیصلہ انسان کو نہایت نیک نیتی سے کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ [٤١٧] اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون جزا و سزا کا دوسرا کلیہ بیان فرمایا جو یہ ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ہو اور وہ ضرور اسے ملے گا اور جو کوئی برا کام کیا ہو تو اس کی سزا بھی اسے ہی ملے گی اور ضرور ملے گی نہ یہاں آباؤ اجداد کی نیکی کام آسکتی ہے اور نہ اس کا نسب، یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ کسی شخص نے کسی نیک کام کی بنیاد رکھ دی ہو جس کے اثرات اس کی موت کے بعد بھی جاری رہیں۔ تو اس میں نیکی کے کام میں اس کو بھی برابر کا حصہ ملتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی برے کام کی بنیاد رکھی ہو۔ اور اس کی موت کے بعد بھی اس کے اثرات جاری رہیں تو وہ اس برائی کے گناہ میں بھی برابر کا حصہ دار ہوگا اور یہ اصول قرآن کریم اور بہت سے احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ بہرحال یہ ممکن نہیں کہ جس بھلائی یا برائی میں انسان کی نیت اور سعی و عمل کو کچھ دخل نہ ہو، اس کی جزا و سزا یا اس میں سے کچھ حصہ اسے مل سکے۔ [٤١٨] خطا ونسیان کی معافی کا اعلان :۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کا یہ جملہ خود ہی مسلمانوں کو سکھلا کر نہ صرف ان کے سابقہ خلجان کو ختم کردیا بلکہ مزید تسلی و تشفی کا سامان بھی مہیا فرما دیا۔ ان کا خلجان یہ تھا کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات جو ہمارے اپنے اختیار میں نہیں ہوتے ان پر مواخذہ نہ ہو اور اس آیت کی رو سے ظاہری اعمال جو بھول چوک سے صادر ہوں ان سے بھی معافی کی درخواست سکھلائی گئی اور جب دعا قبول کرنے والا ہی یہ دعا سکھلا رہا ہو تو اس کی قبولیت میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میری امت سے خطاو نسیان کو معاف کردیا گیا ہے۔ [٤١٩] سابقہ شریعتوں کے احکام:۔ یہاں بوجھ سے مراد سخت قسم کے شرعی احکام ہیں۔ جیسے بچھڑے کی پرستش کرنے والوں کی توبہ صرف قتل سے قابل قبول ہونا، یہود میں صرف قصاص تھا، دیت یا معافی کی صورت نہ تھی۔ ان پر زکوٰۃ چوتھا حصہ تھی اور کپڑے پر اگر پیشاب لگ جاتا تو اسے کاٹ دینا پڑتا تھا، نیز غنیمت کے اموال ان پر حرام تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے سخت احکام میں تخفیف فرما دی۔ [٤٢٠] یہ آیات اس دور میں نازل ہوئیں جب کافروں سے شدید محاذ آرائی تھی اور بہت سے نازک موقعوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی دعائیں مانگی ہیں۔ بالخصوص غزوہ بدر اور غزوہ خندق کے موقعہ پر آپ نے جو دعائیں فرمائیں ان کا ذکر کثرت سے صحیحہ احادیث میں مذکور ہے۔ [٤٢١]اس سورہ کی آخری دوآیات کی فضیلت :۔ اس دعا کے اختتام پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے آمین کہنا ثابت ہے اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان آیتوں کے بعد آمین کہنے کی ترغیب دی۔ (ابن کثیر) نیز آپ نے فرمایا: کہ جو شخص رات کو (سوتے وقت) سورۃ بقرہ کی آخری دو آیات پڑھ لے تو وہ اس کو کفایت کرتی ہیں۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب شہود الملائکۃ بدرا) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت و استعانت اس کے شامل حال رہتی ہے۔