سورة الفرقان - آیت 40

وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ نُشُورًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ لوگ اس بستی کے پاس سے بھی آتے جاتے ہیں جن پر بری طرح بارش برسائی گئی (١) کیا یہ پھر بھی اسے دیکھتے نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ انھیں مر کر جی اٹھنے کی امید ہی نہیں (٢)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٢] آخرت کے قائل اور منکر کا فرق :۔ اس سے مراد لوط (علیہ السلام) کی بستی یا سدوم کا علاقہ ہے۔ ان کفار مکہ کے جو تجارتی قافلے شام کی طرف جاتے اور واپس آتے ہیں تو یہ علاقہ ان کے راستہ میں پڑتا ہے اس علاقہ کی ویرانی اور خستہ حالی یہ کئی بار بچشم خود دیکھ چکے ہیں مگر یہ لوگ اس علاقہ کو محض ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھ کر آگے چلے جاتے ہیں۔ اس سے کچھ بھی عبرت حاصل نہیں کرتے اور ان کی یہ کیفیت محض اس لئے کہ یہ لوگ اللہ کے حضور پیش ہونے اور اپنے اعمال کی سزا پانے کا یقین ہی نہیں رکھتے۔ اور یہی وہ فرق ہے جو ایک آخرت کے منکراور آخرت پر یقین رکھنے والے میں ہوتا ہے۔ آخرت کا منکر ایسے مقامات کو محض ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھتا ہے جبکہ آخرت پر یقین رکھنے والا ایسے مقامات سے عبرت اور کئی سبق حاصل کرتا ہے۔