وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو (١) ہاں آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔ (٢) اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپا لے وہ گناہ گار دل والا ہے (٣) اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے،
[٤١٠]رہن کی چار صورتیں:۔ رہن کے مطالبہ کی چار ممکنہ صورتیں ہیں مثلاً سفر ہو یا حضر ہو اور کاتب نہ مل رہا ہو، دو تو یہ ہوئیں اور دو یہ ہیں کہ سفر یا حضر دونوں جگہ کاتب مل سکتا ہے مگر قرض دینے والا محض تحریر پر اعتماد نہیں کرتا اور اپنے قرضہ کی واپسی کی ضمانت کے طور پر رہن کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور یہ کہ رہن خواہ تحریر کے ساتھ ہو یا تحریر کے بغیر صرف رہن ہو۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک یہودی (ابوشحم) سے ادھار اناج خریدا (تیس صاع جو، اپنی خانگی ضرورت کے لئے) اور آپ نے اپنی زرہ بطور رہن اس کے پاس رکھی تھی (بخاری۔ کتاب الرہن، باب فی الرہن فی الحضر) اور یہ رہن حضر میں تھا اور بلا تحریر تھا۔ چنانچہ ان چاروں صورتوں میں رہن جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو ان میں سے صرف ایک صورت کا ذکر فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروؤں کو فیاضی کی تعلیم دینا چاہتا ہے اور یہ بات بلند اخلاق سے فروتر ہے کہ ایک آدمی مال رکھتا ہو اور وہ دوسرے ضرورت مند کی کوئی چیز رہن رکھے بغیر اسے قرض نہ دے۔ رہن کے احکام: ١۔ مرہونہ چیز کے نفع و نقصان کا ذمہ دار راہن (اصل مالک) ہی ہوتا ہے اور مرتہن (جس کے پاس رہن رکھی گئی ہو) کے پاس وہ چیز بطور امانت ہوتی ہے مثلاً زید نے بکر کے پاس گائے رہن رکھی تھی۔ وہ گائے مر گئی یا چوری ہوگئی تو یہ نقصان زید کا ہوگا بکر کا نہیں۔ اسی طرح اگر گائے نے بچہ جنا تو گائے اور بچہ دونوں زید کے ہوں گے بکر کے نہ ہوں گے۔ چنانچہ سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’گروی رکھنا کسی مرہونہ چیز کو اس کے اصل مالک سے نہیں روک سکتا۔ اس کا فائدہ بھی اسی کے لئے ہے اور اس کا نقصان بھی اسی پر ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب المسلم والرہن۔ فصل ثانی) ٢۔ چونکہ مرہونہ چیز مرتہن کے پاس بطور امانت ہوتی ہے۔ اس لئے وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ مثلاً مکان ہے تو اس میں رہ نہیں سکتا نہ کرایہ پر دے سکتا ہے، زمین ہے تو اس میں کاشت نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ یہ سود ہوگا۔ الا یہ کہ وہ ایسا فائدہ راہن کے حوالہ کردے یا اصل قرضہ کی رقم سے وضع کرتا جائے۔ ٣۔ مگر جن چیزوں پر مرتہن کو کچھ خرچ بھی کرنا پڑے تو ان سے فائدہ اٹھانے کا بھی حقدار ہوگا۔ مثلاً مرہونہ چیز گائے ہے تو اسے چارہ وغیرہ ڈالنے کے عوض اس کا دودھ بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ مرہونہ جانور کی پیٹھ سواری کے لئے شیردار مرہونہ جانور کا دودھ پینے کے لئے اس کے اخراجات کے عوض جائز ہے۔ اور جو شخص سواری کرتا یا دودھ پیتا ہے تو اسی کے ذمہ اس کا خرچہ ہے۔‘‘ (بخاری : کتاب الرہن۔ باب الرہن مرکوب و محلوب) [٤١١] یعنی قرض خواہ کا قرضہ یا جو چیز اس نے لی ہو۔ [٤١٢]دل ہی خیر وشرکامنبع ہے:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا : سن لو! بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ایسا ہے کہ جب وہ درست ہو تو سارا جسم ہی درست ہوتا ہے اور وہ بگڑ جائے تو سارا جسم ہی بگڑ جاتا ہے۔ یاد رکھو! وہ ٹکڑا (انسان کا) دل ہے۔ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب فضل من استبرء لدینہ) اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب انسان کوئی گناہ کا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے پھر اگر انسان توبہ کرلے تو وہ نقطہ دھل جاتا ہے اور اگر توبہ نہ کرے بلکہ مزید گناہ کئے جائے تو وہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے سارے دل کو گھیر لیتا ہے اور اسے سیاہ کردیتا ہے۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب رفع الامانۃ والایمان من بعض الذنوب۔۔) گویا پہلے گناہ دل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور نیت میں فتور آتا ہے پھر وہ گناہ کا کام صادر ہوتا ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب انسان کا دل پوری طرح سیاہ ہوجاتا ہے اس وقت انسان کا دل اس کی سوچ اور فکر پر اثرانداز ہوتا ہے پھر وہ جو بات بھی سوچے گا غلط اور معصیت کی بات ہی سوچے گا۔ دل کی ایسی حالت کو اللہ تعالیٰ نے آثم قلبہ سے تعبیر کیا ہے اور شہادت کو چھپانے والے ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔