وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنزِيلًا
اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائیگا (١) اور فرشتے لگا تار اتارے جائیں گے۔
[٣٥]آسمان وزمین جیسے پہلے دھواں اور گڈ مڈ تھے قیامت کو ویسےہی ہوجائیں گے :۔ اس آیت کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس مادہ سے آسمانوں کی تخلیق ہوئی تھی وہ پھر اسی مادہ میں واپس لوٹا دیئے جائیں گے۔ سورہ فصلت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ ﴾ (۱۱:۴۱)”پھر اللہ تعالیٰ سماء ( بلندی) کی طرف متوجہ ہوا اور اس وقت وہ صرف دھواں تھا۔ “اور دوسرے مقام پر فرمایا : آسمان اور زمین سب کچھ گڈ مڈجمے اور جڑے ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں کھول کر الگ الگ کردیا۔ (٢١: ٣٠) پہلے ابتداً صرف دھواں ہی دھواں یا گیسوں کا مجموعہ تھا۔ اسی سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان بنائے۔ اور قیامت کو یہ آسمان اسی طرح دھوئیں میں تبدیل کردیئے جائیں گے جو بادلوں کی شکل اختیار کرلے گا۔ اسی بادل میں سے فرشتے میدان محشر کی طرف جوق در جوق اتارے جائیں گے۔