يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ۚ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ۗ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اے ایمان والو جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرہ پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو (١) اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہیے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے پس اسے بھی لکھ دینا چاہیے جس کے ذمہ حق ہو (٢) وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوائے اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں پسند کرلو (٤) تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے (٥) اور گواہوں کو چاہیے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی ہے شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے (٦) ہاں یہ اور بات ہے کہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں۔ خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کرلیا کرو (٧) اور (یاد رکھو کہ) نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو (٨) اور تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ سے ڈرو اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
[٤٠١]معاہدات کی تحریر مستحب ہے واجب نہیں :۔ یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے جس میں ادھار سے تعلق رکھنے والے معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کی ہدایات دی جارہی ہے۔ مثلاً جائیدادوں کے بیع نامے، بیع سلم کی تحریر یا ایسے تجارتی لین دین کی تحریر جس میں پوری رقم یا اس کا کچھ حصہ ابھی قابل ادائیگی ہو۔ تاکہ بعد میں اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو یہ تحریر شہادت کا کام دے سکے اور یہ حکم استحباباً ہے واجب نہیں۔ چنانچہ اگر فریقین میں باہمی اعتماد اتناد زیادہ ہو کہ باہمی نزاع کی صورت کا امکان ہی نہ ہو یا محض قرض کا معاملہ ہو اور اس طرح موثق تحریر سے کسی فریق کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہو تو محض یادداشت کے لئے کوئی فریق اپنے پاس ہی لکھ لے تو یہ بھی کافی ہوسکتا ہے۔ [٤٠٢] ہمارے ہاں آج کل ایسی تحریروں کے سند یافتہ ماہرین موجود ہیں جنہیں وثیقہ نویس کہا جاتا ہے۔ وثیقہ نویس تقریباً انہی اصولوں کے تحت سرکاری کاغذات پر ایسے معاہدات لکھ دیتے ہیں اور چونکہ یہ ایک مستقل فن اور پیشہ بن چکا ہے۔ لہٰذا ان کے انکار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الا یہ کہ معاملہ میں کوئی قانونی سقم ہو۔ [٤٠٣] نادان اور بے سمجھ کےحقوق کی حفاظت :۔ یعنی معاہدہ کی املا اس شخص کو کروانی چاہئے جو مقروض ہو کیونکہ ادائیگی کا بار اس کے سر پر ہے۔ ہاں اگر وہ لکھوانے کی پوری سمجھ نہیں رکھتا تو اس کا ولی (سرپرست) اس کے وکیل کی حیثیت سے اس کی طرف سے لکھوا سکتا ہے۔ یہ ولی اس کا کوئی رشتہ دار بھی ہوسکتا ہے اور غیر رشتہ دار بھی۔ جو سمجھدار ہو اور مقروض کا خیر خواہ ہو یا معروف معنوں میں وکیل بھی ولی کی حیثیت سے املا کروا سکتا ہے۔ [٤٠٤]شہادت کانصاب :۔ تحریر کے بعد اس تحریر پر دو ایسے مسلمان مردوں کی گواہی ہونا چاہئے جو معاشرہ میں قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں۔ اور اگر معاملہ ذمیوں کے درمیان ہو تو گواہ ذمی بھی ہوسکتے ہیں۔ اور اگر بوقت تحریر دو مسلمان قابل اعتماد گواہ میسر نہ آئیں تو ایک مرد اور دو عورتیں بھی گواہ بن سکتی ہیں۔ اور اگر ایک بھی مرد میسر نہ آئے تو چار عورتیں گواہ نہیں بن سکتیں۔ اور گواہی کا یہ نصاب صرف مالی معاملات کے لئے ہے۔۔ مثلاً زنا اور قذف کے لئے چار مردوں ہی کی گواہی ضروری ہے۔ چوری اور نکاح و طلاق کے لئے دو مردوں ہی کی گواہی ہوگی۔ افلاس (دیوالیہ) کے لئے اس قبیلے کے تین مردوں کی، رؤیت ہلال کے لئے صرف ایک مسلمان کی اور رضاعت کے ثبوت کے لئے صرف ایک متعلقہ عورت (دایہ) ہی گواہی کے لئے کافی ہوتی ہے۔ [٤٠٥] اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر رکھی گئی ہے اور حدیث کی رو سے یہ عورتوں کے نقصان عقل کی بنا پر ہے۔ اور دوسرے یہ کہ زبانی گواہی کی ضرورت اس وقت پیش آئے گی جب اس معاملہ کی ایسی جزئیات میں نزاع پیدا ہوجائے جنہیں تحریر میں نہ لایا جاسکا ہو اور معاملہ عدالت میں چلا جائے۔ ورنہ تحریر تو کی ہی اس لئے جاتی ہے کہ بعد میں نزاع پیدا نہ ہو۔ اور شہادتیں پہلے سے ہی اس تحریر پر ثبت کی جاتی ہے۔ جب سے اہل مغرب نے مساوات مرد و زن کا نعرہ لگایا ہے اور جمہوری نظام نے عورت کو ہر معاملہ میں مرد کے برابر حقوق عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت سے اس آیت کے اس جملہ کو بھی مسلمانوں ہی کی طرف سے تاویل و تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دو عورتوں کی شہادت کو ایک مرد کے برابر کرکے اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حق تلفی کی ہے۔ پاکستان میں اپوا کی مغرب زدہ مہذب خواتین نے بڑی دریدہ دہنی سے کام لیا اور اس کے خلاف ان عورتوں نے جلوس نکالے اور بینر لکھوائے گئے کہ اگر عورت کا حق مرد سے نصف ہے تو فرائض بھی نصف ہونے چاہئیں عورتوں پر اڑھائی نمازیں، پندرہ روزے اور نصف حج فرض ہونا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ طبقہ اڑھائی نمازیں تو درکنار ایک نماز بھی پڑھنے کا روادار نہیں۔ وہ خود اسلام سے بیزار ہیں ہی، ایسے پراپیگنڈے سے ایک تو وہ حکومت کو مرعوب کرنا چاہتی ہیں کہ وہ ایسا کوئی قانون نہ بنائے جس سے عورت کی حق تلفی ہوتی ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ دوسری سادہ لوح مسلمان عورتوں کو اسلام سے برگشتہ کرسکیں۔ عورت کی گواہی اور مساوات مردوزن :۔ حالانکہ یہاں حقوق و فرائض کی بحث ہے ہی نہیں۔ آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد دلا دے۔ اس میں نہ عورت کے کسی حق کی حق تلفی ہوتی ہے اور نہ اس کی تحقیر ہوتی ہے۔ بات صرف نسیان کی ہے اور وہ بھی اس جزئیات میں جو تحریر میں آنے سے رہ گئی ہوں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت بھول سکتی ہے تو کیا مرد نہیں بھول سکتا۔ تو اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ اسلامی قانون عام حالات کے مطابق وضع کئے گئے ہیں اور ان کا واضع خود اللہ تعالیٰ ہے۔ جو اپنی مخلوق کی خامیوں اور خوبیوں سے پوری طرح واقف ہے۔ عورت پر حیض، نفاس اور حمل اور وضع حمل کے دوران کچھ ایسے اوقات آتے ہیں جب اس کا دماغی توازن برقرار نہیں رہ سکتا۔ اور حکمائے قدیم و جدید سب عورت کی ایسی حالت کی تائید و توثیق کرتے ہیں۔ ان مغرب زدہ خواتین کا یہ اعتراض بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ مرد اپنی جسمانی ساخت اور قوت کے لحاظ سے عورت سے مضبوط ہوتا ہے۔ لہٰذا حمل اور وضع حمل کی ذمہ داریاں مرد پر ڈالنا چاہئے تھیں نہ کہ عورت پر جو پہلے ہی مرد سے کمزور ہے۔ اور اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عورت اپنی اصل کے لحاظ سے ایسی عدالتی کاروائیوں سے سبکدوش قرار دی گئی ہے۔ اب یہ اسلام کا اپنا مزاج ہے کہ وہ عورت کو گھر سے باہر کھینچ لانے کو پسند نہیں کرتا۔ جبکہ موجودہ مغربی تہذیب اور نظام جمہوریت اسلام کے اس کلیہ کی عین ضد ہے۔ عورت کی گواہی کو صرف اس صورت میں قبول کیا گیا ہے جب کوئی دوسرا گواہ میسر نہ آسکے اور اگر دوسرا گواہ میسر آجائے تو اسلام عورت کو شہادت کی ہرگز زحمت نہیں دیتا۔ مختلف مواقع پر عورت کی گواہی مختلف قدروقیمت:۔ عورت کے اسی نسیان کی بنا پر فوجداری مقدمات میں اس کی شہادت قابل قبول نہیں کیونکہ ایسے مقدمات میں معاملہ کی نوعیت سنگین ہوتی ہے۔ مالی معاملات میں عورت کی گواہی قبول تو ہے لیکن دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر رکھا گیا ہے۔ اور عائلی مقدمات میں چونکہ زوجین ملوث ہوتے ہیں اور وہ ان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ جہاں نسیان کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے مقدمات میں میاں بیوی دونوں کی گواہی برابر نوعیت کی ہوگی اور وہ معاملات جو بالخصوص عورتوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ وہاں عورت کی گواہی کو مرد کے برابر ہی نہیں بلکہ معتبر قرار دیا گیا ہے مثلاً مرضعہ اگر رضاعت کے متعلق گواہی دے تو وہ دوسروں سے معتبر سمجھی جائے گی۔ خواہ یہ دوسرے کوئی عورت ہو یا مرد ہو۔ ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں نہ عورت کی تحقیر بیان ہوئی ہے اور نہ کسی حق کی حق تلفی کی گئی ہے بلکہ رزاق عالم نے جو بھی قانون عطا فرمایا ہے وہ کسی خاص مصلحت اور اپنی حکمت کاملہ سے ہی عطا فرمایا ہے اور جو مسلمان اللہ کی کسی آیت کی تضحیک کرتا یا مذاق اڑاتا ہے اسے اپنے ایمان کی خیر منانا چاہئے۔ اور ایسے لوگوں کو اسلام سے منسلک رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دل سے تو وہ پہلے ہی اللہ کے باغی بن چکے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کو کافروں سے بھی زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ [٤٠٦] یعنی جب نزاع کی صورت پیدا ہو کر معاملہ عدالت میں چلا جائے اور انہیں زبانی گواہی دینے کے لئے بلایا جائے تو انہیں انکار نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ بات کتمان شہادت کے ذیل میں آتی ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔ [٤٠٧] اس جملہ میں انسان کی ایک فطری کمزوری کو واضح کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ فریقین خواہ کس قدر قابل اعتماد ہوں اور ان میں نزاع کی توقع بھی نہ ہو اور معاملہ بھی خواہ کوئی چھوٹا سا ہو تاہم بھول چوک اور نسیان کی بنا پر فریقین میں نزاع یا بدظنی پیدا ہوسکتی ہے۔ لہٰذا باقاعدہ دستاویز نہ سہی فریقین کو یا فریقین میں سے کسی اذیک کو یادداشت کے طور پر ضرور لکھ لینا چاہئے۔ [٤٠٨] یہ حکم صرف اس صورت میں ہے جبکہ لین دین کا کوئی اہم معاملہ ہو اور لین دین کرنے کے بعد بھی اس میں نزاع کا احتمال موجود ہو۔ [٤٠٩]گواہوں پرسختی کی صورتیں :۔ اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں مثلاً ایک یہ کہ کسی شخص کو کاتب بننے یا گواہ بننے پر مجبور نہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ کاتب یا گواہ کی گواہی اگر کسی فریق کے خلاف جاتی ہے تو انہیں تکلیف نہ پہنچائے جیسا کہ آج کل مقدمات میں اکثر ایسا ہوتا ہے اور فریق مخالف گواہوں کو یا وثیقہ نویس کو اس قدر دھمکیاں اور تکلیفیں دینا شروع کردیتا ہے کہ وہ گواہی نہ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں یا پھر غلط گواہی دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور تیسری صورت انہیں نقصان پہنچانے کی یہ ہے کہ انہیں عدالت میں بلایا تو جائے لیکن انہیں آمدورفت اور کھانے پینے کا خرچہ تک نہ دیا جائے۔