وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انھیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کو وہ امن امان سے بدل دے گا (١) وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے (٢) اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں (٣)۔
[٨٣]نظام خلافت کی استعدادہر انسان میں بالقوۃ موجود ہے:۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو دنیا میں خلیفہ بنا کر بھیجا تھا تاکہ آدم اور اس کی اولاد دنیا میں وہ نظام حیات قائم کرے جو اللہ کی مرضی کے مطابق ہو اور جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو بھی اور بعد میں وقتاً فوقتاً ان کی اولاد کو بذریعہ وحی بتا بھی دیا تھا۔ اور نظام خلافت کے قائم کرنے کے لئے جو اوصاف درکار تھے وہ سب آدم اور اس کی اولاد کی فطرت میں ودیعت کردیئے گئے تھے۔ ساتھ ہی انسان کو قوت ارادہ و اختیار بھی دیا گیا۔ اور اسی میں حضرت انسان کی آزمائش رکھ دی گئی کہ آیا وہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ اس مقصد خلافت کو پورا کرتا ہے یا نہیں؟ اور چونکہ ایسے اوصاف ہر انسان کی فطرت میں رکھ دیئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے آدم کی تمام تر اولاد خلافت کی مستحق قرار پاتی ہے۔ التبہ ان سے وہ لوگ از خود خارج ہوجاتے ہیں جو اپنی مرضی اور اپنی خواہشات کو اللہ کی مرضی کے تحت نہ بنائیں۔ اس آیت کی رو سے منافقین کو اس خلافت ارضی کے استحقاق سے خارج کردیا گیا اور ان لوگوں کو بھی جو سرے سے ایمان ہی نہ لائیں یا ان کے اعمال صالح نہ ہوں۔ گویا یہ استحقاق صرف ان لوگوں کے لئے باقی رہ گیا جو ایمان بھی لائیں اور اعمال بھی صالح بجا لائیں۔ ایسے ہی لوگوں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر انھیں زمین میں اقتدار حاصل ہو تو وہ ایسا نظام حیات قائم کریں گے جو اللہ کے ہاں پسندیدہ اور اس کی منشاء کے مطابق ہو اور یہی لوگ اپنے میں سے کسی بہترین آدمی کو اپنا امیر یا امام یا خلیفہ بنا لیں گے اور جب وہ ایسا دین یا نظام حیات قائم کرلیں گے تو اللہ ان کے دین کو اور زیادہ مضبوط بنا دیں گے اور ان کی نمایاں خصوصیت یہ ہوگی کہ شرک کو کسی قیمت پر بھی گوارا نہ کریں گے۔ صحابہ کرام سےخلافت ارضی اور دین کے استحکام کا وعدہ الہٰی :۔ اس آیت میں منکم سے اور اس سے پہلی آیات میں منافقین مدینے کے ذکر سے صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یہ وعدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت سے کیا جارہا ہے اور جب یہ سورت نازل ہوئی اس وقت تک مسلمان تنگدستی کی زندگی بسر کر رہے تھے فتح خیبر کے بعد مسلمانوں کی معیشت میں صرف اس حد تک آسودگی آئی تھی کہ مہاجرین نے جو باع اور کھجوروں کے درخت معاہدہ مواخات کے تحت انصار سے مزارعت پر لئے تھے وہ انہوں نے واپس کردیئے تھے۔ اور جنگ احزاب سے پہلے تک مسلمانوں کی نوخیز ریاست مدینہ کی یہ حالت تھی کہ وہاں ہر وقت کفار کے حملہ سے خوف و ہراس کی فضا چھائی رہتی تھی۔ جنگ احزاب کے خاتمہ پر البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ضرور فرمایا تھا کہ آج کے بعد کفار ہم پر چڑھائی کرنے کے لئے نہیں آئیں گے بلکہ اب ہم ان پر چڑھائیں کریں گے۔ مگر مدینہ سے باہر عرب میں لوٹ مار کا بازار گرم رہتا تھا اور کوئی شخص یا کوئی قافلہ خیر خیریت سے سفر نہ کرسکتا تھا۔ اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ نےصرف ایسے خوف وہراس کے خاتمہ کی خوشخبری دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوف کے علاوہ تنگ دستی کے خاتمہ کی بھی خوشخبری دی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ تنگدستی اور بدامنی کےخاتمہ کی شہادت:۔عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ ایک دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ دو آدمی آئے۔ ایک تنگی معیشت کی شکایت کرتا تھا اور دوسرا رہزنی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عنقریب ایسا امن ہوگا کہ یہاں سے جانے والا قافلہ بغیرکسی محافظ کے جائے گا اور اے عدی بن حاتم! کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے؟“ میں نے کہا ” نہیں البتہ اس کی خبر ملی ہے“ فرمایا : اگر تمہاری عمر زیادہ ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ایک عورت حیرہ سے چل کر کعبہ کا طواف کرے گی لیکن اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگ“میں نے دل میں سوچا : ” قبیلہ بنو طے کے لٹیرے جنہوں نے تہلکہ مچا رکھا ہے اس وقت کہاں جائیں گے۔ “ اور قیامت نہیں آئے گی کہ ایک شخص اپنا صدقہ لے کر چکر لگائے کہ اسے کوئی لینے والا مل جائے لیکن اسے کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملے گا۔ اور تم لوگ کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔ میں نے کہا :” کسریٰ بن ہرمز؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا اور اے عدی!” اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو ضرور تم ایسے شخص کو دیکھو گے جو مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر ایسے آدمی کی تلاش میں نکلے گا جو اسے قبول کرے لیکن اسے ایسا کوئی آدمی نہ ملے گا۔“ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ باب الصدقہ قبل الرد کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام) حضرت عدی کہتے ہیں پھر میں نے حیرہ سے چل کر کعبہ کا طواف کرنے والی عورت کو دیکھا جو اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتی تھی اور میں خود ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کئے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ) ان حالات میں ایسی پیشین گوئی مسلمانوں کے لئے ایک عظیم خوشخبری تھی چنانچہ اس خوشخبری کا کچھ حصہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی پورا ہوگیا۔ فتح مکہ اور بالخصوص اعلان براءت کے بعد عرب بھر سے لوٹ مار کی وارداتیں ختم ہوگئیں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آسودگی بھی میسر آگئی مگر عرب سے باہر ابھی تک خوف و ہراس، لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کی فضا قائم تھی۔ جو خلفائے راشدین کے زمانہ میں پوری ہوئی۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فی الواقع اتنی آسودگی ہوگئی کہ ایک شخص اپنی زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے نکلتا تو اسے کوئی مستحق زکوٰۃ شخص نہیں ملتا تھا۔ ضمناً اس آیت سے درج ذیل نتائج بھی سامنے آتے ہیں : ١۔ اعمال صالحہ کی نئی تاویل :۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو نظام خلافت قائم کیا۔ وہی اللہ کے ہاں پسندیدہ دین ہے۔ اور اللہ نے اسی دین کو ان کے لئے پسند فرمایا تھا اور اس نظام خلافت کی خصوصیات سورۃ حج کی آیت نمبر ٤١ میں یہ بیان فرمائیں کہ ایسے مومنوں کو جب ہم اقتدار بخشتے ہیں تو نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کرتے ہیں۔ بھلے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں اس وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اعمال صالح کس قسم کے اعمال ہوتے ہیں اور اس اصطلاح سے شرعاً کون سے اعمال مراد لئے جاسکتے ہیں۔ یہ وضاحت ہمیں اس لئے کرنا پڑی ہے کہ بعض کج فہم حضرات اعمال صالحہ سے مراد صلاحیت رکھنے والے کام لیتے ہیں جیسے وہ اعمال جن سے اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہو۔ اس لحاظ سے ان کے نزدیک ہر وہ قوم جو اس وقت اقتدار حاصل کئے ہوئے ہے وہی ایماندار ہے اور اسی کے اعمال صالح ہیں۔ خواہ وہ قوم کافر، مشرک یا دہریہ ہی کیوں نہ ہو۔ ظاہر ہے یہ کج فکری کتاب و سنت کی تمام تر تعلیمات پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ٢۔ صحابہ کرام کی فضیلت :۔ یہ نظام خلافت اس قدر مضبوط ہوگیا تھا جس کی تمام روئے زمین پر دھاک بیٹھ گئی تھی۔ اور یہ دور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک مسلسل ترقی پذیر رہا۔ اگرچہ بعد میں مسلمانوں کے باہمی تنازعات کی بنا پر ان میں انحطاط آنا شروع ہوگیا۔ تاہم یہ نظام بعد میں مدتوں چلتا رہا۔ ٣۔ اس نظام میں شرک کا شائبہ تک نہ تھا، لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی ہر قسم کے شرک سے پاک و صاف تھی۔ ان تمام باتوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ کون سے اعمال صالح ہیں:۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ آیا اللہ کا یہ وعدہ صرف صحابہ کرام کے لئے ہی مخصوص تھا یا بعد کے مومنوں کے لئے بھی ہے؟ تو اس کا جواب اسی آیت میں مذکور ہے یعنی یہ وعدہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے پہلے کے مومنوں کے لئے بھی تھا تو بعد میں آنے والے مومنوں کے لئے کیوں نہ ہوگا ؟ بشرطیکہ ان میں مندرجہ اوصاف پائے جائیں یعنی وہ سچے مومن ہوں، اعمال صالح بجا لائیں۔ نظام، نماز اور زکوٰۃ قائم کریں۔ اچھے کاموں کا حکم دیں۔ برے کاموں سے روکیں ان کا مقصد محض اللہ کے دین یا نظام خلافت کا قیام ہو۔ اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ ان کی زندگیاں شرک سے کلیتا پاک صاف ہوں۔ صرف اللہ سے ڈرنے والے اور اسی پر توکل کرنے والے ہوں اور باہم متحد ہو کر اور باہمی مشورہ سے کام کریں۔ اور تفرقہ بازی سے بچ رہیں۔ کیونکہ قرآن کریم تفرقہ بازی کو بھی اقسام شرک میں شمار کیا ہے۔ اگر مومن ان اوصاف کو اپنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ ان سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کرے۔ [٨٤] یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے مومنوں یا صحابہ کرام سے ایسے وعدہ اور پکی خوشخبری کے بعد بھی ان کا ساتھ نہ دے اور کفر و نفاق کی راہ اختیار کرے تو ایسے لوگ یقیناً بدکردار ہیں اور بعض علماء نے اس فقرہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ خلفائے راشدین کی خلافت قائم ہونے اور دین کے مضبوط ہونے کے بعد بھی جو شخص اس بات کا انکار کرے کہ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختیار کردہ دین اللہ کا پسندیدہ دین نہیں تھا وہ ایسے لوگ فاسق ہیں۔