سورة المؤمنون - آیت 56

نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ ۚ بَل لَّا يَشْعُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہ ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں (نہیں نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٩] کیاآسودہ حالی اللہ کی رضامندی کی علامت ہے؟ دنیا دار اور جاہل لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ آسودہ حالی اللہ کی رضا مندی کی علامت ہوتی ہے۔ اور تنگدستی یا پریشان حالی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی۔ حالانکہ بسا اوقات معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ چودھری لوگوں کی سرکشی کا بڑا سبب یہی نظریہ ہوتا ہے وہ دیکھتے ہیں کہ پیغمبروں کی تکذیب کرنے اور ایمانداروں پر ظلم و زیادتی روا رکھنے کے باوجود ہی ان کا کچھ نہیں بگڑا تو وہ اس نظریہ پر مزید پختہ ہوجاتے ہیں۔ اب اللہ کی طرف سے ان پر ابتلاء کا دور یوں آتا ہے کہ ان پر مزید انعامات الٰہی کی بارش ہونے لگتی ہے۔ حالانکہ ان انعامات کی حیثیت ایسے ہی ہوتی ہے جیسے بجھنے والا چراغ بجھنے سے پیشتر ایک دفعہ خوب روشن ہوجاتا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ مال و دولت اور نعمتوں کی فراوانی اللہ کی خوشنودی کے طور پر نہیں بلکہ امہال و استدراج کی بنا پر ہے۔ اور جتنی انھیں ڈھیل دی جارہی ہے اسی قدر ان کی شفادت کا پیمان لبریز ہو رہا ہے۔