فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ
اس کی قوم کے کافر سرداروں نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم جیسا ہی انسان ہے، یہ تم پر فضیلت اور بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے (١) اگر اللہ ہی کو منظور ہوتا تو کسی فرشتے کو اتارتا (٢) ہم نے تو اسے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانے میں سنا ہی نہیں (٣)
[٢٧]رسول کابشر ہونا کیوں ضروری ہے:۔ تمام انبیاء اور رسل ہمیشہ بشر ہی ہوتے تھے۔ اور انسانوں کے لئے رسول ہونا بھی کوئی بشر ہی چاہئے جو انہی میں سے ہو تاکہ جب وہ انھیں اپنی زبان میں اللہ کا پیغام پہنچائیں تو وہ اسے سمجھ سکیں۔ نیز رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہی نہیں ہوتا۔ ان احکام پر سب سے پہلے خود عمل پیرا ہو کر عملی نمونہ دکھلانا بھی ہوتا ہے۔ اب اگر رسول انسان کی بجائے فرشتہ ہو یا نوری مخلوق ہو یا کسی اور اعلیٰ جنس سے ہو۔ تو اس پر ایمان لانے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم لوگ انسان ہو کر ایک فرشتہ یا کسی بالاتر جنس والی ہستی کی اقتداء کیسے کرسکتے ہیں۔ یہی وہ مصلحتیں ہیں جن کی بنا پر رسول کا بشر ہونا ضروری ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کسی بشر ہی کو نبی اور رسول بنا کر مبعوث فرمایا اور قرآن کریم میں ان باتوں کی بہت سے مقامات پر وضاحت موجود ہے۔ اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کئی بار اپنی بشریت کا اقرار کرایا ہے۔ حتیٰ کہ اس حقیقت کو اس کلمہ کا لازمی جز بنا دیا جس کے اقرار پر کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ نوروبشرکی بحث :۔ لیکن گمراہ لوگوں کی گمراہیوں میں سے ایک یہ گمراہی بھی بطور قدر مشترک رہی ہے۔ بشریت اور رسالت دونوں صفات اکٹھی نہیں ہوسکتیں انبیاء کی تکذیب کرنے والوں نے سب سے پہلے بطور طعنہ انبیاء سے یہی بات کہی کہ تم تو ہم جیسے بشر ہو تم رسول بن کیسے سکتے ہو؟ یہ ایک طرح کی گمراہی تھی اور دوسری طرح کی گمراہی انبیاء کے عقیدت مندوں میں پیدا ہوتی ہے۔ جو غلو کی راہ اختیار کرکے دوسری انتہاء کو پہنچتے ہیں۔ ان کا نظریہ بھی یہی ہوتا ہے کہ نبوت یا رسالت اور بشیریت ایک ہی شخص میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ فرق یہ پڑجاتا ہے کہ وہ رسالت کا تو اقرار کرتے ہیں مگر بشریت سے انکار کردیتے ہیں۔ دور کیوں جائیے ہم مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بشر کہنے والوں کو’’ گستاخانہ رسول‘‘ کا طعنہ دیتا ہے۔ چنانچہ ان کا یہ فرمان زد نعرہ ’’بشر عرش توں پار جا کوئی نہیں سکدا‘‘ ان کے اسی نظریہ کی ترجمانی کرتا ہے یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کے بجائے نور ثابت کرتے ہیں اور بشریت سے انکار کرتے ہیں اور یہ بحث پہلے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ١٥ کے حاشیہ نمبر ٤٢ کے تحت گزر چکی ہے۔ [٢٨] دنیا داروں کا ہمیشہ سے یہ نظریہ رہا ہے کہ جو شخص بھی کوئی اصلاحی دعوت کے کام کا آغاز کرتا ہے تو انھیں فوراً یہ خیال آتا ہے کہ یہ شخص اپنی چودھراہٹ قائم کرنے اور اپنا جھنڈا بلند کرنے کے لئے یہ کام کر رہا ہے۔ اور وہ اپنے اس نظریہ میں اس حد تک حق بجانب بھی ہوتے ہیں کہ وہ خود چونکہ اسی غرض کے لئے اپنی زندگیاں اور اپنی تمام تر کوششیں کھپا دیتے ہیں۔ لہٰذا وہ ہر شخص کو اسی نظریہ سے دیکھتے ہیں قوم نوح نے نوح علیہ السلام کو یہ طعنہ دیا۔ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہی بات کہی کہ ’’موسیٰ اس ملک پر قابض ہونا چاہتا ہے‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپ کے متعلق یہی نظریہ قائم کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر تم مال و دولت چاہتے تو جتنا چاہو حاضر ہے۔ اقتدار چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا قائد تسلیم کرلیتے ہیں اور کسی حسین عورت سے شادی کرنا چاہتے ہو تو یہ کام بھی ہم کئے دیتے ہیں۔ بشرطیکہ ہماری مخالفت اور ہمارے معبودوں سے باز آجاؤ اور ہم سے سمجھوتہ کر لو۔ انبیاء اور دوسرے لوگوں کےحصول اقتدار میں فرق:۔ پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ انبیاء کو بھی بالآخر اللہ کی مدد سے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے۔ مگر ان دونوں کے اقتدار کے حصول میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایک دنیا دار کا مقصود ہی اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ جبکہ ایک نبی کا اصل مقصود احکام الٰہیہ کا نفاذ ہوتا ہے اور اس کے لئے وہ اقتدار کو محض ایک ذریعہ بناتا ہے۔ اس فرق کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک آدمی قتل ناحق کرتا ہے تو یہ سراسر فساد ہے اور ایک جج اس قاتل کو قصاص میں قتل کی سزا دیتا ہے تو یہ سراسر عدل اور رحمت اور فساد کی روک تھام ہے۔ جبکہ نفس قتل کے لحاظ دونوں واقعات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ [٢٩] یعنی یہ بات کہ ’’رسول بشر ہی ہوتا ہے‘‘ یا یہ کہ ایک اکیلا اللہ ہی ساری کائنات کی فرمانروائی اور حاجت روائی کے لئے بہت کافی ہے اور دوسرے سب معبود لغو اور باطل ہیں۔