سورة المؤمنون - آیت 17

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں (١) اور ہم مخلوقات میں غافل نہیں ہیں (٢)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٨] سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ دلیل بیان فرمائی جو انفس سے تعلق رکھتی ہے اور جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ ﴿فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ﴾ اب آفاق سے چند دلائل پیش کئے جارہے ہیں۔ کائنات کی تخلیق اور اس کی نگہداشت :۔ سبع طرائق سے بعض علماء نے سات آسمان یا سات طبقات مراد لئے ہیں۔ جیسے ارشاد باری ہے : ﴿اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا....﴾اور بعض نے ان سے مراد سات راستے ہی لئے ہیں۔ جو فرشتوں کی آسمانوں میں آمدورفت کے راستے ہیں۔ اور آسمان چونکہ سات ہیں۔ اس لئے یہ راستے بھی سات ہیں۔ اور بعض علماء نے ان سے سات سیاروں کے راستے یا مدار مراد لئے ہیں۔ چونکہ نزول قرآن کے زمانہ میں بطلیموسی نظریہ ہیئت بھی درست سمجھا جاتا تھا اور اس نظریہ کے مطابق سات سیارے ہی محو گردش ہیں اور وہ چاند، زہرہ، عطارد، سورج، مشتری، مریخ اور زحل۔ لہٰذا قرآن نے لوگوں کے علم اور سمجھ کے مطابق سات ہی راستوں کا ذکر فرمایا۔ اگرچہ اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اور فَوْقَکُمْ یعنی تمہارے اوپر کے ایک معنی تو وہی ہیں جو عام فہم ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں کی یا سیاروں اور ان کے مداروں کی تخلیق تمہاری تخلیق سے بہت بلند تر اور بڑی چیز ہے۔ اور اس مطلب کی بھی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے ہوجاتی ہے۔ ﴿ لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ﴾ [١٩] یعنی ہم اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اس کی مستقل نگہداشت بھی کرتے رہتے ہیں کیونکہ جس چیز سے بھی کام لیا جائے وہ کسی نہ کسی وقت بگڑ بھی جاتی ہے اس کی چال اور اس کے کام میں فرق آجاتا ہے اور اگر بروقت اس کی نگہداشت نہ کی جائے تو وہ خراب اور تباہ بھی ہوجاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کا نظام اتنا مربوط و منظم ہے کہ اس میں نہ ذرہ بھر فرق آتا ہے اور نہ کہیں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ جو اس کی بات کی قوی دلیل ہے کہ اس کائنات کا کوئی ایسا منتظم موجود ہے جو اپنی اس عظیم الجثہ مخلوق کی ہمہ وقت کڑی نگہداشت کر رہا ہے۔