ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا (١) پھر دوسری بناوٹ میں اسے پیدا کردیا (٢) برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے (٣)۔
[١٣] رحم مادر میں نطفہ کی نشوونما کے دوران جو مراحل پیش ہوتے ہیں۔ ان کی تشریح سورۃ حج کی آیت نمبر ٥ کے تحت کی جاچکی ہے۔ [١٤] انسان کی اندرونی کائنات:۔ یعنی نطفہ اور بے جان گوشت کے لوتھڑے سے ایک جیتا جاگتا عقل و شعور رکھنے والا انسان بنا کر پیدا کردیا۔ جس کا ایک ایک عضو اور رگ و ریشہ کئی مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے اور اس کا کوئی بھی حصہ بیکار پیدا نہیں کیا گیا۔ اب انسان کی اندرونی ساخت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کئی قسم کی آٹو میٹک کلوں اور مشینوں کا مجموعہ ہے کہیں چکی لگی ہے، کہیں چھلنی ہے، کہیں پیسنے کی کل، کہیں کوٹنے کی، کہیں توڑنے کی کہیں جذب کرنے والی کہیں فضلات کو باہر پھینکنے والی، کہیں اچھالنے والی اور کہیں اتارنے والی اور یہ خودکار مشینیں اس قدر مضبوط، مربوط اور منظم طریقے سے کام کر رہی ہیں جن کا مطالعہ کرکے انسان اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور حکمتوں پر عش عش بھی کر اٹھتا ہے اور ورطہ حیرت میں گم بھی ہوجاتا ہے۔ معدہ خالی ہوجائے تو از خود انسان کو بھوک اور پیاس لگتی ہے اور وہ کھانے پینے پر مجبور ہوتا ہے۔ اور جب غذا معدہ میں پہنچ جاتی ہے تو یہ سب خود کار مشینیں اپنا اپنا کام شروع کردیتی ہیں۔ اگر ان میں سے کسی کل میں خرابی واقع ہوجائے تو انسان بیمار پڑجاتا ہے اور اگر خرابی درست نہ ہو بلکہ بڑھ جائے تو انسان مرجاتا ہے۔ یہ تو تھا جسم کی اندرونی ساخت کا قصہ، اب اس کے قویٰ پر نظر دوڑائیے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس میں زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا نہ سماعت، نہ بصارت، نہ گویائی، نہ چلنے یا بیٹھنے کی طاقت، نہ عقل و خرد، نہ کوئی اور خوبی۔ مگر وہ رحم مادر سے باہر آکر کوئی اور ہی چیز بننا شروع ہوجاتا ہے۔ جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ تھوڑی ہی مدت میں وہ ایک سمیع و بصیر اور ناطق بچہ بن جاتا ہے۔ انسان کا اور ہی چیز بن جانےکامطلب:۔ اب وہ کچھ علم ماحول سے حاصل کرتا ہے اور کچھ اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ سے۔ ذرا اس میں عقل آتی ہے تو اس میں دوسروں سے مسابقت یا آگے نکل جانے کا فن پیدا ہوتا ہے۔ اس کی یہ بیداری اور خودی اسے ہر اس چیز پر اپنا تحکم جتانے اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ جس پر اس کا بس چل سکتا ہو اور اس کی یہی بیداری اور خودی اس میں ''کوئی اور ہی چیز'' ہونے کی کیفیت کو نمایاں تر اور افزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھر وہ جوان اور پختہ عمر کا ہوتا ہے تو اس کی تمام قوتیں، طاقت اور قابلیتیں بھی بڑھتی جاتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب اس میں ''ہمچو ما دیگرے نیست'' کا تصور پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بسا اوقات بعض انسان ایسے محیرالعقول کارنامے بھی سرانجام دیتے ہیں جو عام انسانوں کی بساط سے باہر ہوتے ہیں۔ [١٥] اب اگر انسان ذرا سا بھی غور کرے کہ کس طرح ایک حقیر پانی کی بوند سے اس کی زندگی کا آغاز ہوا۔ اور مختلف مراحل طے کرانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے کیا سے کیا بنا دیا۔ تو بے اختیار اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل آتے ہیں کہ ﴿فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس کس قدر خیرو خوبی والی اور حکمتوں اور قدرتوں والی ہے جس نے انسانی تخلیق کا آغاز مٹی سے یا نطفہ سے کیا پھر مختلف مراحل طے کراکر محیرالعقول طریقوں سے اسے ایک باشعور اور صاحب ادارہ و اختیار انسان بنا دیا۔ واضح رہے کہ تبارک کا لفظ عموماً اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے اور ان خیر کے کاموں کے سلسلہ میں آتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہیں۔