سورة المؤمنون - آیت 8

وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨] امانتوں سے مراد ہر وہ امانت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا معاشرہ کی طرف سے یا کسی فرد کی طرف سے کسی شخص کے سپرد کی گئی ہو۔ خواہ یہ امانت منصوبوں سے تعلق رکھتی ہو یا اقوال سے یا اموال سے ان سب کی پوری پوری نگہداشت ضروری ہے۔ یہی صورت مال، عہد اور معاہدات کی ہے۔ خواہ کوئی عہد اللہ تعالیٰ سے کیا گیا ہو اور اللہ تعالیٰ نے بندوں سے لیا ہو۔ خواہ یہ آپس کا قول و قرار ہو اور خواہ یہ معاہدہ بیع یا نکاح سے متفق ہو۔ ان کو وفا کرنا ضروری ہے۔ امانت میں خیانت اور وعدہ خلافی دونوں ایسے جرم ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منافق کی علامتیں قرار دیا ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے۔ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب علامۃ المنافق) ٢۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی جب تک اسے چھوڑ نہ دے جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد کرے تو بے وفائی کرے۔ اور جب جھگڑا کرے تو بکواس یا ناحق کی طرف چلے‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب علامۃ المنافق) اب دیکھئے پہلی حدیث میں صرف تین علامتیں مذکور ہیں جن میں دو یہی ہیں جو اس آیت میں مذکور ہیں اور دوسری میں جو چار علامتیں مذکور ہیں ان میں سے دو یہی باتیں ہیں۔