ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ
بات یہی ہے (١) اور جس نے بدلہ لیا اسی کے برابر جو اس کے ساتھ کیا گیا تھا پھر اگر اس سے زیادتی کی جائے تو یقیناً اللہ تعالیٰ خود اس کی مدد فرمائے گا (٢) بیشک اللہ درگزر کرنے والا بخشنے والا ہے (٣)
[٨٨] مظلوم کی آہ سے بچنے کاحکم خواہ کسی بھی قوم سے تعلق رکھتا ہو:۔ پچھلی دو آیات میں ان مہاجر مسلمانوں کا ذکر تھا۔ جو کفار کے ظلم و تشدد سے مجبور ہو کر گھر بار چھوڑنے پر آمادہ ہوگئے اور وہ ظلم کا بدلہ لے ہی نہ سکتے تھے۔ اب ان لوگوں کا ذکر ہے۔ جو بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوں۔ انھیں یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ اگر وہ بدلہ لینا چاہیں تو اتنا ہی بدلہ لیں جس قدر ان پر زیادتی ہوئی ہے۔ اور اگر بدلہ لینے میں زیادتی کریں گے تو یہ خود ظالم ٹھہریں گے اس صورت میں اللہ ان کی مدد کرے گا۔ جو مظلوم ہیں۔ کیونکہ اللہ ہمیشہ مظلوم کی مدد کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو جہاں اور بہت سی نصیحتیں ارشاد فرمائیں وہاں سب سے آخر میں اور بطور خاص جو نصیحت فرمائی وہ یہ تھی۔ ”وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ“(مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب الدعاء الی الشہادتین و شرائع الاسلام) یعنی مظلوم کی بددعا سے بچے رہنا کیونکہ مظلوم کی پکار اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ اسی مضمون کو شیخ سعدی رحمہ اللہ نے بڑے خوبصورت انداز میں یوں بیان کیا ہے۔ بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن اجابت از در حق بہر استقبال می آید یعنی مظلوموں کی آہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اس آہ کی قبولیت خود اسے لینے کو آگے آتی ہے۔ [٨٩] زیادتی کےبرابر بدلہ لینے کاجواز یا رخصت:۔ اس آیت میں صرف زیادتی کے برابر بدلہ لینے کی اجازت دی گئی ہے اور اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو اللہ اس بات کو قطعاً پسند نہیں کرتا اور اسے ظلم شمار کیا جائے گا۔ اس اجازت کے باوجود اگر بدلہ نہ لیا جائے تو یہی بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ لہٰذا بندوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی اور معاشرتی معاملات میں عفو و درگزر کی عادت کو اپنائیں اور ہر وقت بدلہ لینے کے درپے نہ ہوا کریں۔