سورة البقرة - آیت 257

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالیٰ خود ہے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیا شیاطین ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٦٧] دو مقاموں کے درمیان سیدھا راستہ صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ جبکہ ٹیڑھی راہیں بے شمار ہوتی ہیں۔ بالفاظ دیگر کفر و ضلالت کے اندھیرے کئی طرح کے اور بے شمار ہیں جبکہ اسلام کا نور ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح کا ہے۔ اسی طرح طاغوت بے شمار ہو سکتے ہیں جبکہ معبود حقیقی صرف ایک اللہ ہے۔ اسی لحاظ سے اس آیت میں اسلام کی سیدھی راہ یا روشنی کے لیے واحد اور کفر کی تاریکیوں کے لیے جمع کی ضمیریں استعمال ہوئی ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے اس مضبوط حلقہ کو تھامے رکھتا ہے۔ اللہ اس کا سرپرست بن جاتا ہے اور اسے کفر و ضلالت کی گمراہیوں سے نکال کر اسلام کی روشنی کی طرف لے آتا ہے اور جو لوگ اس مضبوط حلقہ یا شریعت سے اعراض و انکار کرتے ہیں تو ہر طرح کے طاغوت اس کے سرپرست بن جاتے ہیں جو اس کو ہدایت کی راہ سے منحرف کر کے کفر و ضلالت کی گمراہیوں اور تاریکیوں میں جا دھکیلتے ہیں۔ پھر اسے اسلام کی روشنی نظر آ ہی نہیں سکتی۔