سورة الحج - آیت 13

يَدْعُو لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ ۚ لَبِئْسَ الْمَوْلَىٰ وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اسے پکارتے ہیں جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے، یقیناً برے والی ہیں اور برے ساتھی (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١] یعنی اس قسم کے منافقین کو جب اسلام میں داخل ہونے میں کوئی مشکل یا مصیبت نظر آتی ہے، کافروں اور مشرکوں کی طرف سے جانے میں کوئی مادی فائدہ نظر آتا ہے تو فوراً اس کنارے سے اتر کر مشرکوں کی صف میں جا شامل ہوتے ہیں اور ایسےبتوں یا آستانوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کے اختیار میں دوسروں کا نفع و نقصان تو کیا ہوگا وہ اپنی بھی مدافعت نہیں کرسکتے۔ ایسے لوگوں کا نقصان تو یقینی ہے کہ انہوں نے دنیوی مفاد کی خاطر اپنا ایمان ضائع کردیا اور جس دنیوی فائدہ کی خاطر انہوں نے یہ گمراہی کی راہ اختیار کی۔ وہ فائدہ غیر یقینی ہے کبھی وہ توقع پوری ہو بھی جاتی ہے اگر اللہ کو منظور ہو تو بسا اوقات جس فائدہ کی خاطر اپنا ایمان بھی بھینٹ چڑھایا تھا وہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ [١٢] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جس نے بھی اسے راستے پر ڈالا خواہ وہ کوئی انسان تھا یا شیطان وہ اس کا بدترین کارسا اور برا ساتھی ثابت ہوا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے ان مشرک اور بت پرست اپنے معبودوں کو بھی جہنم میں پڑے دیکھ کر یہ جملہ کہیں گے کہ جن سے ہم نے کئی قسم کی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں یہ تو بہت برے کارساز اور برے ساتھی ثابت ہوئے جو جہنم کا ایندھن بن کر ہماری تکلیف میں مزید اضافہ کا باعث بن گئے ہیں۔