سورة البقرة - آیت 251

فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شگست دے دی اور (حضرت) داؤد علیہ اسلام) کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا (١) اور اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو مملکت و حکمت (٢) اور جتنا کچھ چاہا علم بھی عطا فرمایا۔ اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٥١]سیدناداؤدعلیہ السلام اور جالوت کومارڈالنا:۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے بکریاں چرایا کرتے تھے، پھرتیلا، مضبوط اور چست بدن تھا۔ بہت اچھے نشانہ باز تھے اور جو وحشی جانور بکریوں کے ریوڑ پر حملہ آور ہوتے۔ پتھروں کے ذریعہ ہی انہیں مار ڈالتے یا مار بھگاتے تھے۔ وہ اتنے جرات مند اور طاقتور تھے کہ اگر کوئی درندہ ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو اس کے نچلے جبڑے پر پاؤں رکھ کر اوپر کے جبڑے کو اس زور سے کھینچتے تھے کہ اسے چیر کے رکھ دیتے تھے۔ [٣٥٢] جب مقابلہ شروع ہوا تو جالوت خود سامنے آیا، اور آ کر دعوت مبارزت دینے لگا وہ سارے کا سارا لوہے میں ڈوبا ہوا تھا، صرف چہرہ اور آنکھیں ننگی تھیں۔ داؤد علیہ السلام نے راہ میں سے دو تین پتھر اس غرض سے اٹھا لیے تھے۔ آپ نے یکے بعد دیگرے یہ تینوں پتھر فلاخن میں رکھ کر ان سے جالوت پر حملہ کیا جو اس کی پیشانی پر لگے اور اس کے سر کو چیرتے ہوئے پیچھے گدی تک نکل گئے، جس سے جالوت مر کر گر پڑا۔ اس واقعہ سے جالوت کے لشکر کے حوصلے پست ہوگئے اور طالوت کے اس مختصر لشکر کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ بعد میں وہ بنی اسرائیل کا متفق علیہ اور بلا شرکت غیرے بادشاہ بن گئے۔ [٣٥٣] اس واقعہ کے بعد طالوت نے اپنی بیٹی کا داؤد علیہ السلام سے نکاح کردیا اور طالوت کے بعد داؤد علیہ السلام ہی اس کے جانشین ہوئے پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت سے بھی سرفراز فرمایا۔ [٣٥٤] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے اپنا ضابطہ بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو ایک خاص حد تک زمین میں غلبہ و طاقت حاصل کرنے کی قوت و توفیق عطا فرماتا ہے۔ پھر جب وہ قوم فساد فی الارض میں مبتلا ہو کر اس حد خاص سے آگے بڑھنے لگتی ہے تو کسی دوسری قوم کے ذریعہ اس کا زور توڑ دیتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا اور ایک ہی قوم یا پارٹی کا اقتدار زمین میں ہمیشہ قائم رکھا جاتا تو اس کا ظلم و تشدد انتہا کو پہنچ جاتا اور اللہ تعالیٰ کے ملک میں فساد عظیم بپا ہوجاتا۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ تمام اقوام پر اس کی بہت مہربانی ہے۔