قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ
ہم نے فرما دیا اے آگ! تو ٹھندی پڑجا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے سلامتی (اور آرام کی چیز) بن جا۔
[٥٨] مفسرین کہتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو الاؤ میں ڈالا جانے لگا تو جبرئیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور کہا ’’ کہو تو آپ کی مدد کروں؟‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا : ’’مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔ مجھے میرا اللہ کافی ہے‘‘ پھر جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ’’اچھا اپنے اللہ سے دعا ہی کرو‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : ’’میرا اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور مجھے یہی کافی ہے‘‘ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مخلص بندے کی یوں مدد فرمائی کہ آگ کو حکم دے دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی ہوجا مگر اتنی ٹھنڈی بھی نہیں کہ ٹھنڈک کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تکلیف پہنچے بلکہ صرف اس حد تک ٹھنڈی ہو کہ حضرت ابراہیم آگے کے درمیان صحیح و سالم رہ سکیں۔ یہ آگ جو کئی دنوں میں بنائی گئی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی کئی دن اس آگ میں رکھا گیا مگر آپ کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ جو رسیاں آپ کی مشکیں باندھنے کے لئے استعمال کی گئی وہ تو جل گئیں مگر آپ کے جسم کو کچھ گزند نہ پہنچا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ وہ دن کیا آرام و راحت کے دن تھے جب میں آگ میں رہا تھا۔ معجزہ کا انکار دراصل قدرت الٰہی کا انکار ہے:۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ یہ واقعہ خرق عادت یا عام معمول (Routine) کے خلاف ہے جس میں حاوی سبب اور مسبب کے درمیانی رشتہ کو منقطع کردیا گیا ہو۔ آگ کا خاصہ ہر چیز کو جلا دینا اور بھسم کردینا ہے اور یہ خاصہ آگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سلب کرلیا تھا۔ اب جن لوگوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے لئے بھی کوئی خرق عادت کام کرنا یا معجزہ رونما کرنا یا مسبب اور مسبب کے درمیانی تعلق کو منقطع کردینا ممکن نہیں ہے۔ اور اسی بنا پر وہ ایسے واقعات کی دور اذکار تاویلیں کرنے لگتے ہیں تاآنکہ انھیں طبعی امور کے تابع بنا کے چھوڑیں تو ہم ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ آخر وہ اللہ تعالیٰ کو ماننے کی بھی زحمت کیوں گوارا کرتے ہیں۔ طبعی امور پر تو نیچری، دہریے اور وجود باری تعالیٰ کے منکر سب ہی یقین رکھتے ہیں۔ اور اگر وہ ایسا کام تھا کہ ہر زمانہ کے نظریات کے مطابق ڈھال لیا جایا کرے۔ قرآن نے اللہ تعالیٰ کا جو تعارف کرایا ہے وہ یہ ہے کہ طبعی قوانین کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے ان میں استثناء کا بھی اور بوقت ضرورت وہ اپنے ان بنائے ہوئے قوانین میں تبدیلی بھی کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا اللہ اور قرآن پر ایمان لانے والوں پر قطعاً یہ فرض نہیں کیا گیا کہ وہ ہر دور کے لوگوں سے قرآن کے مضامین کو منور کرکے چھوڑیں۔ خواہ اس کام کے لئے انھیں کسی غیرمعقول اور دور اذکار تاویلیں کرنی پڑیں۔ سرسید احمد خان نے اس واقعہ کے متعلق لکھا کہ یہ کفار کا فقط ابراہیم علیہ السلام کو جلانے یا مارنے کا ارادہ تھا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنی ہی بات تھی تو اللہ تعالیٰ کو یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی۔ ﴿ قُلْنَا یٰنَارُکُـوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ ﴾اب اس سے آگے چلئے حافظ عنایت اللہ اثری صاحب چونکہ حدیث کو بھی مانتے ہیں اور بخاری کی مرفوع حدیث حِیْنَ اُلْقِیَ فِیْ النَّارِ کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ مگر پھر بھی ان کی طبیعت اس واقعہ کو ماننے پر آمادہ نہیں ہوتی اور سخت گرانبار نظر آتی ہے۔ چنانچہ وہ خود ہی ایک سوال اٹھا کر اس کا جواب دیتے ہیں۔ جسے ہم ناظرین کی دلچسپی کے لئے یہاں درج کر رہے ہیں : سوال : کیا ابراہیم علیہ السلام کو سچ مچ آگ میں ڈالا گیا تھا یا وہ صرف کفار کے فتنہ و فساد کی آگ تھی۔ جسے اللہ پاک نے ٹھنڈا کردیا۔ قرآن میں اگرچہ ارادہ القاء آیا ہے مگر بخاری میں مرفوعاً حِیْنَ اُلْقِیَ فِیْ النَّار آیا ہے؟ (بیان المختار ص ١١٥) جواب : ہوسکتا ہے وہ فتنہ و فساد کی آگ ہو جسے اللہ پاک نے ٹھنڈا کردیا ہو جیسا کہ وہ فرماتا ہے ﴿کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّـلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللّٰہُ﴾(۵:۶۴) ’’یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے اور سلگاتے رہتے ہیں۔ جسے ہم ہی بجھاتے اور ٹھنڈا کرتے رہتے ہیں‘‘ (حوالہ ایضاً) اس آیت اور اس کے ترجمہ میں اثری صاحب نے مندرجہ ذیل مغالطے دیئے ہیں : (١) اس آیت میں اوقدوا کا استعمال کیا ’’یہ محاورۃً‘‘ ہے ورنہ لڑائی کی آگ حقیقتاً ایسی نہیں ہوتی جس میں لکڑی وغیرہ جل جائیں یا وہ دوسری چیزوں کو جلا کر راکھ بنا ڈالے۔ (٢) قرآن کریم نے حرقوه کا لفظ استعمال فرمایا ہے یعنی ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر جلا دو۔ (٣) اطفأکے معنی بجھانا تو ٹھیک ہے مگر ٹھنڈا کرنا نہیں ہے۔ آپ نے اس کا اضافہ کرکے اشتباہ پیدا کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ (٤) قرآن کریم کے الفاظ ﴿ بَرْدًا وَّسَلاَمًا﴾(یعنی ٹھنڈی بھی ہوجا اور سلامتی والی بھی) اس میں بجھنے کا ذکر تک نہیں۔ کہ سرے سے آگ ہی بجھ جائے اور ابراہیم علیہ السلام جلنے سے بچ جائیں۔ اور یہی وہ الفاظ ہیں جو ان حضرات کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے ہی نہیں گئے تھے تو پھر اللہ کا یہ حکم کیا معنی رکھتا ہے؟ اب اثری صاحب کے جواب کا دوسرا حصہ سنیئے جو حدیث سے متعلق ہے۔ فرماتے ہیں ’’اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سچ مچ انہوں نے آگ میں جلا دینے کا ارادہ کرلیا اور القی فی النار الحدیث سے بھی پیدا شدہ خطرناک حالات سے مصادقت مراد ہے کہ کام بالکل تیار تھا۔ مگر اللہ پاک نے آپ کو بال بال بچا لیا۔ (حوالہ ایضاً) معجزہ کی اثری تاویل اوراس کا جواب:۔ کچھ سمجھے آپ کہ عصا دقت سے کیا مراد ہے؟ یعنی ابراہیم علیہ السلام آگ سے بچے اور ہٹے رہے اور آگ ابراہیم علیہ السلام سے بچی اور ہٹی رہی یعنی آگ میں پڑنے کے باوجود دونوں نے ایک دوسرے کو چھوا نہیں اب سوال یہ ہے کہ یہ تو پھر معجزہ کی صورت بن گئی۔ کہ آگ کے الاؤ میں پڑنے کے باوجود نہ آگ نے آپ کو چھوا اور نہ آپ نے آگ کو چھوا اور یہی کچھ ہم کہتے ہیں۔ آپ کی مثال تو آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا والی بن گئی اور ایک معجزہ کی تاویل کرتے کرتے ایک دوسرے معجزہ میں جا پھنسے۔ البتہ اثری صاحب کے خیال میں یہ ناممکن ہے کہ ابراہیم علیہ السلام آگ میں پڑے اور آگ اپنا جلانے کا کام نہ کرے اور یہی بات اللہ کی قدرت سے بھی انکار ہے اور قرآن و حدیث کو تسلیم کرنے سے بھی۔