قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ
بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم (علیہ السلام) کہا جاتا ہے (١)۔
[٥٣] جب ان لوگوں نے میلہ سے واپس آکر اپنے مشکل کشاؤں کی یہ خستہ حالی دیکھی تو انھیں بہت دکھ ہوا۔ انھیں یہ خیال تک نہ آیا کہ بڑے بت کے کندھے پر جو کلہاڑا ہے تو شاید اسی بڑے خدا نے چھوٹے خداؤں کو تہس نہس کردیا ہو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بت تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے، توڑا پھوڑ کا کام کیسے کرسکتے ہیں؟ اور یہی کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام انھیں سمجھنا چاہتے تھے۔ انھیں خیال آیا تو صرف یہ کہ جس کسی نے یہ کام کیا ہے وہ بڑا ظالم ہے۔ اب ان مشکل کشاؤں کی ناراضگی سے ہم پر قہر نازل ہوکے رہے گا اور اس قہر سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم اس ظالم کا سراغ لگائیں اور اسے قرار واقعی سزا دیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ کئی لوگوں کے سامنے یہ اظہار خیال کرچکے تھے کہ ’’یہ بے جان پتھر کی مورتیاں نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتی ہیں اور نہ سنوار سکتی ہیں لہٰذا ان کی عبادت کرنا صریح گمراہی اور انسانیت کی توہین ہے‘‘ لہٰذا بعض لوگوں کو فوراً یہ خیال آگیا کہ یہ کارستانی ابراہیم کی ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی شخص ہماری نظر میں ایسا نہیں جو ہمارے ان معبودوں میں اس قدر گستاخ واقع ہوا ہو۔