سورة البقرة - آیت 243

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کردیا (١) بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٤٠]طاعون کےخوف سے بھاگنے والے بنی اسرائیل کی موت اور دوبارہ زندگی :۔ اس آیت سے آگے جہاد کا مضمون شروع ہو رہا ہے اور بطور تمہید اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ واقعہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگ کسی شہر میں رہتے تھے۔ وہاں طاعون کی وبا پھیل گئی تو یہ طاعون کی وبا کا شکار ہو کر مر جانے کے خطرہ کی بنا پر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر ہزاروں کی تعداد میں شہر سے نکل کھڑے ہوئے اور سمجھے کہ اس طرح موت سے بچ جائیں گے، ابھی کسی منزل پر بھی نہ پہنچنے پائے تھے کہ راہ میں انہیں موت نے آ لیا اور سب کے سب مر گئے۔ ممکن ہے وہ طاعون کے جراثیموں سے ہی مرے ہوں۔ انہوں نے اللہ پر بھروسہ نہ کیا اور بزدلی دکھائی، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان سب کو ہی موت کی نیند سلا دیا اور اگر وہ اللہ کی تقدیر پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے شہر میں مقیم رہتے تو ممکن ہے ان میں سے اکثر بچ جاتے۔ پھر کچھ مدت بعد حزقیل پیغمبر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ تھے، ادھر سے گزرے اور یہ صورت حال دیکھ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے انہیں دوبارہ زندگی عطاء کی اور ہر شخص ﴿سُبْحَانَکَ لاَ اِلٰہَ الاَّ أنْتَ﴾ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔