سورة طه - آیت 78

فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

فرعون نے اپنے لشکروں سمیت ان کا تعاقب کیا پھر تو دریا ان سب پر چھا گیا جیسا کچھ چھا جانے والا تھا (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٥]سیدناموسیٰ علیہ السلام اور بنواسرائیل کی بحر احمرکے ساحلی راستے سے شام وفلسطین کوہجرت :۔ اس مقام پر جادوگروں کے مقابلہ کے بعد پھر بہت سے واقعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ دریں عرصہ آپ کی تبلیغ سے بہت سے اسرائیلی اور غیر اسرائیلی آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ لیکن ان ایمان لانے والوں کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ بالخصوص بنی اسرائیل کے لئے تو وہی سزاشروع ہوچکی تھی جو موجودہ دور کے فرعون کے باپ نے اپنے دور میں بنی اسرائیل کو دی تھی۔ یعنی بنی اسرائیل کے ہاں جو لڑکے پیدا ہوں فورا ً مار ڈالے جائیں اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے۔ اگرچہ باپ اور بیٹے دونوں کے مقاصد میں فرق تھا۔ باپ یہ چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل میں سے میری سلطنت کو زیر و زبر کرنے والا بچہ پیدا ہوتے ہی مار ڈالا جائے اور بیٹے کا مقصد یہ تھا کہ موسیٰ اور ہارون جو بنی اسرائیل کی آزادی کا اور ہمراہی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تو ان کی نسل ہی ختم کردو تاکہ اس مطالبہ کی نوبت ہی نہ آئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ارادے پورے ہو کے رہتے ہیں اور وہ خود ہی ان کے لئے راہ بتلا دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ آج میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ۔ آپ نے دارالسطنت کے مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے ایمان لانے والوں کو انتہائی خفیہ طریقہ سے اطلاع کردی۔ ان میں غیر اسرائیلی بھی شامل تھے۔ اگرچہ تھوڑے سے تھے اور ایک مخصوص مقام بتلا دیا گیا کہ رات کے فلاں وقت فلاں مقام پر سب لوگ اکٹھے ہوجائیں۔ وہاں سے ہجرت کرکے آپ شام و فلسطین کی طرف جانا چاہتے تھے۔ جو بنی اسرائیل کا آبائی وطن تھا وہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں یہاں آکر آباد ہوئے تھے اور اس دور تک ان کی نسل کے افراد ایک سے بہت زیادہ ہوچکے تھے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس قافلہ کو لے کر بحراحمر کا رخ اختیار کیا۔ ان دنوں نہر سویز موجود نہیں تھی اور آپ کا ارادہ یہ تھا کہ بحر احمر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سینا میں داخل ہوجائیں گے۔ فرعونیوں کا تعاقب:۔ ابھی اس سمندر کے کنارے ہی جارہے تھے کہ فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت ان کے تعاقب میں سر پر آپہنچا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ سامنے سمندر تھا اور پیچھے فرعون کا لشکر۔ ہر طرف موت نظر آرہی تھی۔ بنی اسرائیل یہ صورت حال دیکھ کر سخت گھبرا گئے اور کہنے لگے : ’’موسیٰ ! ہم تو مارے گئے‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ اپنا وہی سانپ بن جانے والا عصا سمندر کے پانی پر مارو۔ عصا کو پانی پر مارنا تھا کہ سمندر میں کشادہ سڑک بن گئی۔ پانی کی ایک دیوار ایک طرف کھڑی تھی اور دوسری طرف اللہ نے ہواؤں کو حکم دیا جس سے نچلی زمین خشک ہوگئی اور اس سڑک کے راستہ سے بنی اسرائیل اس سمندر کو عبور کرگئے۔ فرعونیوں کی غرقابی :۔ یہ لوگ ابھی دوسرے کنارے پر پہنچے ہی تھے کہ فرعون کا لشکر بھی کنارے پر پہنچ گیا۔ اس نے کھلا راستہ دیکھا تو فورا ً اپنے گھوڑے اس میں ڈال دیئے۔ بنی اسرائیل دوسرے کنارے کھڑے یہ سب صورت حال دیکھ رہے تھے۔ اور سخت دہشت زدہ تھے۔ جب فرعون کا لشکر عین وسط میں پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے پانی کو رواں ہونے کا حکم دیا۔ پانی بڑے زور سے غراتا ہوا بہہ نکلا۔ اب فرعون اور فرعونیوں کو اپنی موت نظر آنے لگی تو فرعون فورا ً پکار اٹھا کہ ’’میں بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتا ہوں‘‘مگر اب ایمان لانے کا وقت گزر چکا تھا۔ اس طرح فرعون کا یہ سارا عظیم الشان لشکر اس سمندر کی تہہ میں ڈوب گیا اور اوپر سے سمندر اپنی پوری روانی سے بہنے لگا اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل پر بیک وقت تین احسان فرمائے (١) فرعونیوں سے نجات، (٢) سر پر کھڑی موت کے بعد زندگی، (٣) دشمن کی مکمل طور پر ہلاکت۔ اور یہ واقعہ ١٠ محرم کو پیش آیا تھا۔