الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
یہ طلاقیں دو مرتبہ (١) ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا (٢) یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا (٣) اور تمہیں حلال نہیں تم نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں (٤) یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہیں بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جائیں وہ ظالم ہیں۔
[٣٠٧] لاتعدادطلاقوں کاسدباب:۔دور جاہلیت میں عرب میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ مرد کو اپنی بیوی کو لاتعداد طلاقیں دینے کا حق حاصل تھا۔ ایک دفعہ اگر مرد بگڑ بیٹھتا، اور اپنی بیوی کو تنگ اور پریشان کرنے پر تل جاتا تو اس کی صورت یہ تھی کہ طلاق دی اور عدت کے اندر رجوع کرلیا پھر طلاق دی پھر رجوع کرلیا اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا، نہ وہ عورت کو اچھی طرح اپنے پاس رکھتا اور نہ ہی اسے آزاد کرتا کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرسکے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرد اپنی عورت کو جتنی بھی طلاقیں دینا چاہتا، دیئے جاتا اور عدت کے اندر رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ مرد سو بار یا اس سے زیادہ طلاقیں دیتا جائے۔ یہاں تک کہ ایک (انصاریٰ) مرد نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم! میں نہ تجھ کو طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو سکے اور نہ ہی تجھے بساؤں گا۔ اس عورت نے پوچھا : وہ کیسے؟ وہ کہنے لگا، میں تجھے طلاق دوں گا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا۔ یہ جواب سن کر وہ عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی اور اپنا یہ دکھڑا سنایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ خاموش رہیں تاآنکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو یہ ماجرا سنایا تو آپ بھی خاموش رہے۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ﴾..... (ترمذی۔ ابو اب الطلاق، اللعان) طلاق کا سنت طریقہ :۔ اس آیت سے اسی معاشرتی برائی کا سدباب کیا گیا اور مرد کے لیے صرف دو بار طلاق دینے اور اس کے رجوع کرنے کا حق رہنے دیا گیا۔ طلاق دینے کا مسنون اور سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرد حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور پوری عدت گزر جانے دے۔ اس صورت کو فقہی اصطلاح میں طلاق احسن کہتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دے اور دوسرے میں دوسری اور تیسرے میں تیسری دے دے اس صورت کو حسن کہتے ہیں۔ پہلی صورت کا فائدہ یہ ہے کہ اگر عدت گزر جانے کے بعد بھی میاں بیوی آپس میں مل بیٹھنے پر رضامند ہوں تو تجدید نکاح سے یہ صورت ممکن ہے ایک مجلس میں تین طلاقیں:۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ یکبارگی تینوں طلاقیں دے دے۔ یہ صورت طلاق بدعی کہلاتی ہے اور ایسا کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (ہدایہ، کتاب الطلاق) اگرچہ بعض ائمہ فقہاء کے مطابق اس صورت میں بھی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مگر سنت کی رو سے یہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ (١) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک یک بارگی تین طلاق کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : لوگوں نے ایک ایسے کام میں جلدی کرنا شروع کردی جس میں ان کے لیے مہلت اور نرمی تھی تو اب ہم کیوں نہ ان پر تین طلاقیں ہی نافذ کردیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا قانون نافذ کردیا۔ (مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث) (٢) ابو الصہباء نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنا دیا جاتا تھا ؟ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا۔ ’’ہاں۔‘‘ (بحوالہ، ایضاً) (٣) ابو الصہباء نے حضرت عباس سے کہا : ایک مسئلہ تو بتلائیے کہ رسول اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک ہی شمار نہ ہوتی تھیں؟ حضرت ابن عباس نے جواب دیا، ہاں ایسا ہی تھا۔ پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو اکٹھی تین طلاق دینے کا رواج عام ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر تین ہی نافذ کردیں۔ (حوالہ ایضاً) مندرجہ بالا تین احادیث اگرچہ الگ الگ ہیں۔ مگر مضمون تقریباً ایک ہی جیسا ہے اور ان احادیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے۔ ١۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، دور صدیقی رضی اللہ عنہ اور دور فاروقی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو تین سالوں تک لوگ یکبارگی تین طلاق دینے کی بدعات میں مبتلا تھے اور یہی عادت دور جاہلیت سے متواتر چلی آ رہی تھی جو دور نبوی میں بھی کلیتاً ختم نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ دور نبوی میں ایک شخص نے یکبارگی تین طلاقیں دیں تو آپ غصہ سے کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ : میری زندگی میں ہی کتاب اللہ سے یوں کھیلا جا رہا ہے؟ آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے اجازت چاہی کہ : میں اس مجرم کو قتل نہ کر دوں؟ تو آپ نے ازراہ شفقت اس مجرم کو قتل کرنے کی اجازت نہ دی، (نسائی، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث المتفرقہ- ابو داؤد، کتاب الطلاق باب نسخ المراجعہ بعد التطلیقات الثلاث) اس واقعہ سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینا شرعی نقطہ نگاہ سے کتنا بڑا گناہ اور مکروہ فعل ہے۔ ٢۔ لوگوں کی اس بدعادت پر انہیں زجر و توبیخ کی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ طریقہ کتاب و سنت کے خلاف تھا تاہم ١٥ ھ تک عملاً یکبارگی تین طلاق کو ایک ہی قرار دیا جاتا رہا۔ اور لوگوں کی معصیت اور حماقت کے باوجود ان سے حق رجوع کو سلب نہیں کیا جاتا تھا۔ ٣۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ فَلَوْاَمْضَیْنَاہُ عَلَیْھِمْ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ تعزیر و تادیب کے لیے تھا تاکہ لوگ اس بدعادت سے باز آ جائیں۔ یہ فیصلہ آپ نے سرکاری اعلان کے ذریعہ نافذ کیا۔ گویا یہ ایک وقتی اور عارضی قسم کا آرڈیننس تھا۔ کتاب و سنت کی طرح اس کی حیثیت دائمی نہ تھی۔ ٤۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے کوئی شرعی بنیاد موجود ہوتی تو آپ یقیناً استنباط کر کے لوگوں کو مطلع فرماتے، جیسا کہ عراق کی زمینوں کو قومی تحویل میں لیتے وقت کیا تھا اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے استنباط کو درست تسلیم کر کے آپ سے پورا پورا اتفاق کرلیا تھا، اگر آپ کسی آیت یا حدیث سے استنباط کر کے اور لوگوں کو اس سے مطلع کر کے یہ فیصلہ نافذ کرتے تو پھر واقعی اس فیصلہ کی حیثیت شرعی اور دائمی بن سکتی تھی۔ کیا ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ اجماعی ہے؟یہی وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر آج تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ پر امت کا اجماع نہ ہوسکا اور جو لوگ اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا دعویٰ باطل ہے۔ کیونکہ تطلیق ثلاثہ کے بارے میں مندرجہ ذیل چار قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں۔ ١۔ پہلا گروہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو وقتی اور تعزیری سمجھتا ہے اور سنت نبوی کو ہی ہر زمانہ کے لیے معمول جانتا ہے۔ ان کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے اس گروہ میں ظاہری، اہل حدیث اور شیعہ شامل ہیں (نیز قادیانی جنہیں غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے وہ بھی ایک ہی طلاق کے قائل ہیں) علاوہ ازیں ائمہ اربعہ کے مقلدین میں سے بعض وسیع الظرف علماء بھی شامل ہیں اور بعض اشد ضرورت کے تحت اس کے قائل ہیں۔ ٢۔ دوسرا گروہ مقلد حضرات کا ہے جن کی اکثریت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو مشروع اور دائمی سمجھتی ہے۔ البتہ اس کام کو گناہ کبیرہ سمجھتی ہے۔ ٣۔ تیسرا گروہ دوسری انتہا کو چلا گیا ہے۔ ان کے نزدیک ایک مجلس میں ایک طلاق واقع ہونا تو جائز ہے۔ لیکن اگر دو یا تین یا زیادہ طلاقیں دی جائیں تو ایک بھی واقع نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاق دینا کار معصیت اور خلاف سنت یعنی بدعت ہے۔ جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھَذٰا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوْرَدٌ (متفق علیہ) جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہ تھی تو وہ بات مردود ہے۔ لہذا ایسی بدعی طلاقیں سب مردود ہیں، لغو ہیں، باطل ہیں۔ لہٰذا ایک طلاق بھی واقع نہ ہوگی۔ اس گروہ میں شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگ شامل ہیں۔ نیز محمد بن ارطاۃ اور محمد بن مقاتل (حنفی) بھی اس کے قائل ہیں (شرح مسلم للنووی، ج ١۔ ص ٤٧٠) ٤۔ اور ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو ایک مجلس کی تین طلاق کو غیر مدخولہ کے لیے ایک ہی شمار کرتے ہیں اور مدخولہ کے لیے تین۔ (زادالمعادج ٤ ص ٦٧) غور فرمائیے کہ جس مسئلہ میں اتنا اختلاف ہو کہ اس میں چار گروہ پائے جاتے ہوں اسے ’’اجماعی‘‘ کہا جا سکتا ہے؟ ایک مجلس میں ایک سے زیادہ طلاقیں دینے کی بدعادت دور جاہلیہ کی یادگار ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد پھر عود کر آئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس عادت کو چھڑانے کے لیے تین طرح کے اقدامات کئے تھے۔ ١۔ وہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والوں کو بدنی سزا بھی دیتے تھے۔ ٢۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرنا بھی حقیقتاً ایک سزا تھی۔ جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نافذ کردیا۔ ٣۔ اور جب لوگوں نے اپنی عادت پر کنٹرول کرنے کی بجائے حلالہ کی باتیں شروع کردیں تو آپ نے حلالہ نکالنے اور نکلوانے والے دونوں کے لیے رجم کی سزا مقرر کردی۔ اس طرح یہ فتنہ کچھ مدت کے لیے دب گیا۔ گویا دور فاروقی میں اس معصیت کی اصلاح اس صورت میں ہوئی کہ حلالہ کا دروازہ سختی سے بند کردیا گیا تھا۔ مگر آج المیہ یہ ہے کہ مقلد حضرات ہوں یا غیر مقلد کوئی بھی اکٹھی تین طلاق دینے کو جرم سمجھتا ہی نہیں۔ جہالت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام تو درکنار، خواص بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہیں۔ حالانکہ طلاق کی بہترین اور مسنون صورت یہی ہے کہ صرف ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ تاکہ عدت گزر جانے کے بعد بھی اگر زوجین مل بیٹھنا چاہیں تو تجدید نکاح سے مسئلہ حل ہوجائے۔ تاہم اگر آپس میں نفرت اور بگاڑ اتنا شدید پیدا ہوچکا ہو کہ مرد تازیست اپنی بیوی کو رشتہ زوجیت میں نہ رکھنے کا فیصلہ کرچکا ہو اور اپنی حسرت اور غصہ مٹانے کے لیے تین کا عدد پورا کر کے طلاق مغلظہ ہی دینا چاہتا ہو تو پھر اسے یوں کرنا چاہیے کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دیتا جائے، تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی ﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ﴾کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔ آج کے دور میں ایک مجلس کی تین طلاق کو کار معصیت یا گناہ کبیرہ نہ سمجھنے کے لحاظ سے مقلد اور غیر مقلد دونوں حضرات ایک جیسے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ایسے مجرم کو کیا سزا دی جانی چاہیے۔ تاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ سنت بھی زندہ ہو۔ البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ اس جرم کے بعد اہل حدیث تو ایسے مجرم کو سنت نبوی کی راہ دکھلاتے ہیں۔ جبکہ بعض حنفی حضرات حلالہ جیسے کار حرام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ بذریعہ ڈاک بیوی کو تین طلاقیں لکھ بھیجنا:۔ آج کل جو یہ دستور چل نکلا ہے کہ پہلے بیوی کو میکے بھیج دیتے ہیں بعد میں کسی وقت بذریعہ چٹھی تین طلاق تحریری لکھ کر ڈاک میں بھیج دیتے ہیں یہ نہایت ہی غلط طریقہ ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں: ١۔ ایک وقت کی تین طلاق کار معصیت گناہ کبیرہ ہے۔ بدعت ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا تصریحات سے واضح ہے۔ ٢۔ دوران عدت مطلقہ کا نان نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمہ ہوتی ہے اور مطلقہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے جس سے وہ رجوع کا حق رکھتا ہے جسے وہ ضائع کردیتا ہے۔ اس دوران وہ نان نفقہ کے اس بار سے بھی سبکدوش رہنا چاہتا ہے جو شرعاً اس پر لازم ہے۔ ٣۔ عدت کے دوران عورت کو اپنے پاس رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ شاید حالات میں ساز گاری پیدا ہوجائے۔ منشائے الٰہی یہ ہے کہ رشتہ ازدواج میں پائیداری بدستور قائم رہے۔ اگرچہ ناگزیر حالات میں طلاق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :'' اَبْغَضُ الْحَلاَلِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاَقُ'' (ابو داؤد، کتاب الطلاق) یعنی تمام حلال اور جائز چیزوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔ لہٰذا اللہ کی خوشنودی اسی بات میں ہے کہ طلاق دینے کے بعد عدت کے دوران مرد رجوع کرلے، اور وہ زبردستی بھی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یعنی اگر عورت رضامند نہ ہو تو بھی وہ ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے جس سے علیحدگی کی راہ بند ہو اور مصالحت کی راہ کھل جائے۔ ٤۔ عدت گزر جانے کے بعد عورت کی رخصتی کے وقت دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے (٦٥؍٢) اور بذریعہ خط طلاقیں بھیج دینے سے اس حکم پر بھی عمل نہیں ہو سکتا۔ گواہوں کی اہمیت مصلحت کے لیے دیکھئے سورۃ طلاق کے حواشی۔ اب یہ سوال ہے کہ آج کے دور میں بیک وقت تین طلاق دینے والے مجرم کی سزا کیا ہونی چاہیے، اگرچہ یہ مسئلہ علمائے کرام اور مفتیان عظام کی توجہ کا مستحق ہے۔ تاہم میرے خیال میں اس کی سزا ظہار کا کفارہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ دونوں کام ﴿مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ﴾ (ناپسندیدہ اور انہونی بات) کے ضمن میں آتے ہیں اور کئی وجوہ سے ان میں مماثلت ہے۔ ظہار کا کفارہ ایک غلام کو آزاد کرنا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ آج غلامی کا دور تو ختم ہوچکا۔ البتہ باقی دو سزاؤں میں سے کوئی ایک مفتی حضرات ایسے مجرموں کے لیے تجویز کرسکتے ہیں جب تک ان کے لیے کوئی سزا تجویز نہ کی جائے ان کو اپنے جرم کا کبھی احساس تک نہ ہو سکے گا۔ اس طرح ہی اس رسم بد اور بدعت کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے اور علمائے کرام کو ایسی سزا تجویز کرنا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ خاموشی اور بے حسی کے ذریعہ کسی معصیت کے کام کو قائم رکھنا یا رہنے دینا بھی کار معصیت ہے۔ لہٰذا ایسے مجرم کو سزا بھی دینا چاہیے اور طلاق بھی ایک ہی شمار کرنا چاہیے، تاکہ سنت نبوی پر بھی عمل ہوجائے اور سنت فاروقی پر بھی۔ [٣٠٨] یعنی اسے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کیا جائے، خالی ہاتھ یا دھکے دے کر گھر سے ہرگز نہ نکالا جائے۔ [٣٠٩]مطلقہ سے دی ہوئی چیز واپس لیناگناہ ہے:۔ یعنی حق مہر بھی اور اس کے علاوہ دوسری اشیاء (مثلاً زیور کپڑے وغیرہ) جو خاوند اپنی بیوی کو بطور ہدیہ دے چکا ہو۔ کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینا عام حالات میں بھی جائز نہیں اور ایسے ہدیہ واپس لینے والے کے اس فعل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کتے سے تشبیہ دی ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹ لے۔ (بخاری، کتاب الھبۃ، باب ھبة الرجل لامراتہ) طلاق دینے والے شوہر کے لیے یہ اور بھی شرمناک بات ہے کہ کسی زمانہ میں اس نے جو اپنی بیوی کو ہدیہ دیا تھا۔ رخصت کرتے وقت بجائے مزید کچھ دینے کے اس سے پہلے تحائف کی بھی واپسی کا مطالبہ کرے۔ [٣١٠] زوجین کا باہمی سمجھوتہ :۔اگر میاں بیوی میں ناچاقی کی صورت پیدا ہوجائے یا ہونے کا خدشہ ہو اور وہ سمجھیں کہ شاید حسن معاشرت کے متعلق ہم اللہ کے احکام بجا نہ لا سکیں گے اور مرد کی طرف سے ادائے حقوق زوجہ میں قصور بھی نہ ہو۔ تو عورت اپنے کسی حق سے دستبردار ہو کر یا اپنی طرف سے کچھ مال دے کر خواہ وہ خاوند ہی کا دیا ہو۔ اسے طلاق نہ دینے پر رضامند کرلے تو یہ صورت بھی جائز ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنھا بنت زمعہ جب بوڑھی ہوگئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نیز اس خیال سے بھی کہ کہیں آپ انہیں طلاق نہ دے دیں۔ اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کردی تھی (بخاری کتاب الہبۃ باب ہبۃ المراۃ لغیر زوجھا الخ) [٣١١]خلع کے احکام :۔ اگر حالات زیادہ کشیدہ ہوں اور عورت بہرحال اپنے خاوند سے اپنا آپ چھڑانا چاہتی ہو تو جو زر فدیہ وہ آپس میں طے کرلیں وہی درست ہوگا اور وہ رقم لینے کے بعد مرد اسے طلاق دے گا۔ عورت پر طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی اسے شرعی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ثابت بن قیس (بن شماس انصاری) کی بیوی (جمیلہ) جو عبداللہ بن ابی منافق کی بہن تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ میں ثابت بن قیس پر دینداری اور اخلاق میں کوئی عیب نہیں لگاتی، مگر میں یہ نہیں چاہتی کہ مسلمان ہو کر خاوند کی ناشکری کے گناہ میں مبتلا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ ’’اچھا جو باغ ثابت نے تمہیں (حق مہر میں) دیا تھا وہ واپس کرتی ہو؟‘‘ وہ کہنے لگی جی ہاں! کرتی ہوں۔ آپ نے ثابت بن قیس سے فرمایا : اپنا باغ واپس لے لو اور اسے طلاق دے دو‘‘ (بخاری، کتاب الطلاق، باب الخلع و کیف الطلاق فیہ) یہ ضروری نہیں کہ زر فدیہ اتنا ہی ہو جتنا حق مہر تھا۔ اس سے کم بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی۔ مگر زیادہ لینے کو فقہا نے مکروہ سمجھا ہے اور اگر معاملہ آپس میں طے نہ ہو سکے تو عورت عدالت کی طرف رجوع کرسکتی ہے۔ اس صورت میں تمام حالات کا جائزہ لے کر عدالت جو فدیہ طے کرے گی وہی نافذ العمل ہوگا اور عورت اس وقت تک اس مرد سے آزاد نہ ہوگی جب تک وہ زر فدیہ ادا نہ کر دے اور وہ مرد یا اس کی جگہ عدالت اسے طلاق نہ دے دے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جمیلہ بنت ابی نے خلع کے لیے کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی۔ ثابت بن قیس پوری طرح اس کے حقوق بھی پورے کر رہے تھے اور ان کے اخلاق بھی قابل اعتراض نہیں تھے۔ جمیلہ بنت ابی کو طبعی نفرت صرف اس وجہ سے تھی کہ ثابت بن قیس رنگ کے کالے تھے اور وہ خود عبداللہ بن ابی (رئیس المنافقین) کی بہن ہونے کی بنا پر چودھریوں کا سا ذہن رکھتی تھی۔ تاہم سچی مومنہ تھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اس طبعی نفرت کو ہی معقول وجہ قرار دے کر خلع کا حکم دے دیا۔