مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ
ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑجائے۔ (١)
[٢] قرآن اتنا ہی پڑھنا چاہئے جتنا کہ دل کی خوشی سے پڑھا جائے :۔ یعنی یہ قرآن اس لئے نہیں اتارا گیا کہ آپ لوگوں کے ہدایت کے سلسلہ میں سارے جہان کا درد سر مول لے لیں۔ آپ کا کام صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں۔ پھر جس کسی کے دل میں کچھ بھی اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا۔ وہ ضرور اس قرآن کی ہدایت کو قبول کرے گا اور اس کے لئے یاددہانی کا کام دے گا اور جو لوگ اللہ سے بے خوف ہوچکے ہیں وہ اگر اس کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے تو آپ کو اس بارے میں پریشان نہ ہونا چاہئے اور نہ ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلکان کردینا چاہئے۔ قرآن کے نزول کا مقصد آپ کو مشقت میں ڈالنا ہرگز نہیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ان دنوں رسول اللہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رات کو کھڑے ہو کر بہت زیادہ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس محنت اور ریاضت کو دیکھ کر کافر کہتے تھے کہ قرآن کیا اترا ہے۔ بے چارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت میں پڑگئے۔ اس وقت یہ آیت اتری۔ اور کافروں کی بات کا جواب بھی دیا گیا کہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے یہ مصیبت نہیں، بلکہ نصیحت اور یاددانی ہے۔ رحمت ہے نور ہے۔ اور جو شخص جس قدر قرآن شوق اور نشاط سے پڑھنا چاہے اتنا ہی پڑھ لے۔ اگر کوئی زیادہ پڑھتا ہے تو وہ اپنی رضا و رغبت سے پڑھتا ہے محنت اور مشقت سمجھ کر نہیں پڑھتا۔