سورة البقرة - آیت 228

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں (١) انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہو چھپائیں (٢) اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو، ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حقدار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو (٣) اور عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ (٤) ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٠٣] یہ حکم ان عورتوں کے لیے ہے جو حاملہ نہ ہوں کیونکہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے اور جس عورت سے اس کے خاوند نے ابھی تک صحبت ہی نہ کی، اس پر کوئی عدت نہیں۔ عدت کے دوران نان و نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمہ ہوتا ہے اور اسے اپنے خاوند کے ہاں ہی عدت گزارنا چاہیے۔ کیونکہ اس دوران خاوند اس سے رجوع کا حق رکھتا ہے اور قانوناً وہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے۔ قروء، قرء کی جمع ہے اور قرء کا معنی لغوی لحاظ سے حیض بھی ہے اور طہر بھی۔ یعنی یہ لفظ لغت ذوی الاضداد سے ہے۔ احناف اس سے تین حیض مراد لیتے ہیں۔ جبکہ شوافع اور مالکیہ طہر مراد لیتے ہیں۔ اس فرق کو درج ذیل مثال سے سمجھئے۔ طلاق دینے کا صحیح اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہو تو اسے طہر کے شروع میں ہی بغیر مقاربت کئے طلاق دے دی جائے اور پوری مدت گزر جانے دی جائے۔ عدت کے بعد عورت بائن ہوجائے گی۔ اب فرض کیجئے کہ کسی عورت ہندہ نامی کی عادت یہ ہے کہ اسے ہر قمری مہینہ کے ابتدائی تین دن ماہواری آتی ہے۔ اس کے خاوند نے اسے حیض سے فراغت کے بعد ٤ محرم کو طلاق دے دی۔ اب احناف کے نزدیک اس کی عدت تین حیض ہے یعنی ٣ ربیع الثانی کی شام کو جب وہ حیض سے فارغ ہوگی، تب اس کی عدت ختم ہوگی۔ جبکہ شوافع اور مالکیہ کے نزدیک تیسرا حیض شروع ہونے تک اس کے تین طہر پورے ہوچکے ہوں گے۔ یعنی یکم ربیع الثانی کی صبح کو حیض شروع ہونے پر اس کی عدت ختم ہوچکی ہوگی۔ اس طرح قروء کی مختلف تعبیروں سے تین دن کا فرق پڑگیا۔ اور ہم نے جو قروء کا ترجمہ حیض کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے فاطمہ بنت حبیش سے فرمایا کہ دعی الصلوۃ ایام اقرائک یعنی ایام حیض میں نماز چھوڑ دو۔ علاوہ ازیں خلفائے اربعہ، بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کبار اور تابعین اس بات کے قائل ہیں کہ قروء کا معنی حیض ہے۔ [٣٠٤]حمل میں غلط بیانی :۔ یعنی انہیں چاہیے کہ وہ صاف صاف بتلا دیں کہ انہیں حیض آتا ہے یا وہ حاملہ ہیں جیسی بھی صورت ہو، مثلاً عورت حاملہ تھی مگر اس نے خاوند کو نہ بتلایا، اگر بتلا دیتی تو شاید خاوند طلاق نہ دیتا، یا عورت کو تیسرا حیض آ چکا مگر اس نے خاوند کو نہ بتلایا تاکہ اس سے نان نفقہ وصول کرتی رہے۔ غرضیکہ جھوٹ سے کئی صورتیں پیش آ سکتی ہیں۔ لہذا انہیں چاہیے کہ اللہ سے ڈر کر صحیح صحیح بات بتلا دیا کریں۔ [٣٠٥]مردکوعورت پر فوقیت:۔ یعنی عدت کے اندر تو خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہے لیکن عدت گزر جانے کے بعد بھی (اگر ایک یا دوسری طلاق دے دی ہو تیسری نہ دی ہو) تو اگر میاں بیوی آپس میں مل بیٹھنے پر راضی ہوں تو وہی زیادہ حقدار ہیں کہ از سر نو نکاح کرا لیں۔ جیسا اس سورۃ کی آیت نمبر ٢٣٢ سے واضح ہے۔ [٣٠٦] مردوں اور عورتوں کے حقوق کی تفصیل طویل ہے۔ البتہ مرد کو عورت پر فضیلت کا جو درجہ حاصل ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ مرد ہی عورتوں کے معاملات کے ذمہ دار اور پورے گھر کے منتظم ہوتے ہیں اور خرچ و اخراجات بھی وہی برداشت کرتے ہیں۔ لہذا طلاق اور رجوع کا حق صرف مرد کو دیا گیا ہے۔