سورة مريم - آیت 75

قُلْ مَن كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَٰنُ مَدًّا ۚ حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضْعَفُ جُندًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کہہ دیجئے! جو گمراہی میں ہوتا ہے اللہ رحمٰن اس کو خوب لمبی مہلت دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ ان چیزوں کو دیکھ لیں جن کا وعدہ کیے جاتے ہیں یعنی عذاب یا قیامت کو، اس وقت ان کو صحیح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ کون برے مرتبے والا اور کس کا گروہ کمزور ہے (١)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٧] انعامات کی فراوانی سے آزمائش :۔ اسکے بجائے اصل صورت حال یہ ہوتی ہے کہ جو لوگ دنیا کے سازوسامان میں دل لگا کر اس کی دلفریبیوں پر ریجھ گئے ہوں اللہ تعالیٰ ان پر مزید انعامات کی بارش کئے جاتے ہیں اور اس انداز سے ان کی آزمائش کرتے ہیں۔ پھر اس کی بھی ایک حد مقرر ہوتی ہے۔ اگر اس عرصہ میں وہ اللہ کی طرف رجوع کرلیں اور دین حق کی طرف لوٹ آئیں تو فبہا ورنہ انھیں عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور ایسا عذاب دنیا میں بھی آسکتا ہے جیسا کہ سابقہ اقوام پر آچکا ہے اور اگر دنیا میں بچ جائیں تو قیامت کو تو ضرور انھیں اس سے سابقہ پڑنے والا ہے۔ اس وقت انھیں قدر عافیت معلوم ہوجائے گی اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ حقیقتا ً خوشحالی کس فریق کا مقدر ہے اور سوسائٹی کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔؟