سورة مريم - آیت 39

وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تو انھیں اس رنج و افسوس کے دن (١) کا ڈر سنا دے جبکہ کام انجام کو پہنچا دیا جائے گا (٢) اور یہ لوگ غفلت اور بے ایمانی میں ہی رہ جائیں گے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٥] یوم حسرت۔ موت کو مینڈھے کی شکل میں ذبح کرنا ہے :۔ کافروں کے پچھتانے کے مواقع تو بہت ہوں گے۔ مگر آخری موقع غالبا ً وہ ہوگا جب اہل جنت کو جنت جانے کا اور اہل دوزخ کو دوزخ میں جانے کا فیصلہ سنا دیا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آیا ہے : ”سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (قیامت کے دن) موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لے کر آئیں گے۔ پھر ایک پکارنے والا پکارے گا : ’’اے اہل جنت!‘‘ وہ ادھر دیکھیں گے تو فرشتہ کہے گا :’’تم اس مینڈھے کو پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے ’’ہاں ۔ یہ موت ہے اور ہم سب اس کا مزہ چکھ چکے ہیں‘‘ پھر وہ پکارے گا ’’دوزخ والو!‘‘ وہ لوگ بھی گردن اٹھا کر ادھر دیکھنے لگیں گے تو فرشتہ کہے گا :’’تم اس مینڈھے کو پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں! یہ موت ہے، ہم سب اس کو دیکھ چکے ہیں۔‘‘ اس وقت وہ مینڈھا ذبح کردیا جائے گا۔ اس کے بعد وہ فرشتہ کہے گا : ’’جنت والو! تمہیں ہمیشہ بہشت میں رہنا ہے اور دوزخ والو! تمہیں بھی ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ اب کسی کو موت نہیں آئے گی۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ﴿ وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ ۔۔۔۔۔ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) اس دن کافر سب کچھ خوب دیکھ رہے ہوں گے اور سن بھی رہے ہوں گے مگر ہر طرف سے ناامید ہو کر حسرت سے اپنے ہاتھ کاٹیں گے۔ مگر اس وقت کچھ فائدہ نہ ہوگا۔