سورة مريم - آیت 34

ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ ہے صحیح واقعہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا، یہی ہے وہ حق بات جس میں لوگ شک شبہ میں مبتلا ہیں (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣١] سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں افراط وتفریط میں مبتلا فرقے ، ان کے جھگڑے اور کلام فی المہد کے اہم نکات :۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی حقیقت بالکل یہی ہے جو یہاں بیان کردی گئی۔ لیکن اہل کتاب نے اس میں کئی اختلاف اور جھگڑے کھڑے کردیئے۔ یہود نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اتنا گھٹایا کہ نعوذ باللہ انھیں ولدالزنا قرار دے کر اس پر دلائل پیش کرنے لگے اور نصاریٰ نے ان کا درجہ اس قدر چڑھایا کہ انھیں عین اللہ قرار دے لیا یا کچھ دوسرے انھیں ابن اللہ کہنے لگے اور اپنے ایسے عقائد کے دلائل پیش کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دونوں گروہ افراط و تفریط اور غلو فی الدین میں مبتلا ہیں۔ جو کچھ اصل حقیقت تھی وہ یہاں بیان کردی گئی ہے۔ پھر اس اصل حقیقت کے بیان ہوجانے کے بعد اب مسلمانوں کے ایک فرقہ نے جو معجزات کے منکر ہیں اس حقیقت سے اختلاف کیا اور کہنے لگے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی معجزانہ طور پر نہیں بلکہ عام فطری دستور کے مطابق ہوئی تھی اور قرآن کے بیان کے علی الرغم قرآن ہی کی معنوی تحریف کرکے ایسے دلائل ڈھونڈنے لگے۔ ایسے تمام لوگوں کا اور ان کے اختلاف کا اب قیامت کے دن فیصلہ ہوگا۔ (سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ پیدائش کے منکرین کے سلسلہ میں دیکھئے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٥٥ کا حاشیہ) اور عیسائی حضرات اللہ کو باپ سیدہ مریم کو ماں اور سیدنا عیسیٰ کو بیٹا کہتے ہیں۔ مگر سیدہ مریم کو اللہ کی بیوی نہیں کہتے۔ یعنی ماں باپ مان کر بھی ان کے ہاں سیدنا عیسیٰ کی پیدائش کا وہ طریقہ نہیں جو والدین کے واسطہ سے ہوتا ہے۔ پھر اگر کوئی بات خرق عادت ماننا ہی ہے تو بدوں باپ پیدائش مان لینے میں کیا اشکال ہے؟