فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا
پھر درد زہ اسے ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہوجاتی (١)۔
[٢٤] یعنی زچگی کے درد سے بے تاب ہو کر اٹھیں اور ایک کھجور کے تنے کا سہارا لیا۔ کیفیت یہ تھی ایک تو درد زہ کی شدت کی تکلیف، دوسرے تنہائی و بیکسی، تیسرے اشیائے خوردنی اور دیگر ضروریات کا فقدان۔ حتی ٰ کہ پانی تک موجود نہ تھا اور سب سے زیادہ پریشان کن بات آئندہ بدنامی اور رسوائی کا تصور تھا۔ اب سب باتوں سے آپ اس قدر پریشان ہوئیں کہ بے اختیار منہ سے یہ الفاظ نکل گئے۔ کاش میں آج سے پہلے ہی مرچکی ہوتی اور لوگوں کے حافظہ سے بھی اتر چکی ہوتی۔ جو حضرات معجزات کے منکر ہیں۔ وہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو قرآنی تصریحات کے علی الرغم فطری پیدائش قرار دیتے ہیں اور اس سلسلہ میں انھیں اناجیل کی روایات قبول کرنے میں بھی کچھ باک نہیں ہوتا۔ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ انجیل میں تو فقط سیدہ مریم کی یوسف نجار سے منگنی کا ذکر ہے مگر یہ حضرات باقاعدہ نکاح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سیدہ مریم کے اس جملہ”کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور میرا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا“ کی تعبیر یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ جملہ انہوں نے درد زہ کی شدت کی وجہ سے کہا تھا۔ یہ تعبیر اس لحاظ سے غلط ہے کہ درد زہ ہر عورت کو ہوتی ہے اور ہر وضع حمل کے وقت ہوتی ہے۔ لیکن صرف اس درد کی بنا پر کسی عورت نے کبھی موت کی آرزو نہیں کی۔ بلکہ عورتیں ایسے موقعوں پر ہمیشہ یہ درد خوشی کے ساتھ برداشت کرتی ہیں بالخصوص اس صورت میں کہ بچہ بھی پہلونٹی کا ہو اور پھر اولاد بھی نرینہ ہو۔ لہٰذا منکرین معجزات یا نیچری حضرات کی یہ تاویل صرف اللہ کی آیات کا مذاق ہی نہیں بلکہ تجربہ کی کسوٹی پر بھی غلط ثابت ہوتی ہے۔