قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا
اس نے جواب دیا کہ میں تو اللہ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیا ہوں۔
[٢٠] فرشتے نے جواب دیا۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اگر میرے متعلق کوئی برا خیال آیا ہے تو اسے نکال دو۔ میں آدمی نہیں بلکہ تمہارے پروردگار کا فرستادہ فرشتہ ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطاکروں۔ یہاں جبریل علیہ السلام نے لڑکا عطا کرنے کی نسبت جو اپنی طرف کی ہے تو اس سے یہ شبہ نہ ہونا چاہئے کہ فرشتے اللہ کے شریک ہیں اور اللہ نے انھیں کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں جیسا کہ مشرکین سمجھتے ہیں یا مشرکین مکہ سمجھتے تھے۔ کیونکہ یہاں ساتھ ہی یہ وضاحت موجود ہے کہ’’میں تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں‘‘ یعنی اس کام پر مامور ہوا ہوں۔ مجھے اس کام کا حکم دیا گیا ہے۔ گویا مدبرات امرکام کی نسبت کبھی براہ راست اللہ کی طرف کرتے ہیں، کبھی اپنی طرف اور جب اپنی طرف کریں تو وہ بھی حقیقتا اللہ ہی کی طرف ہوتی ہے۔ جیسے اسی واقعہ کی نسبت ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا ﴾(۱۲:۶۶)