سورة الكهف - آیت 110

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں (١) (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، (٢) تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت (٣) میں کسی کو شریک نہ کرے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٠] کفار کا یہ اعتراض اور اس کا جواب متعدد بار پہلے بھی گزر چکا ہے یعنی میں بھی تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں، کھاتا ہوں، پیتا ہوں، چلتا ہوں، نکاح اور شادیاں کرتا ہوں البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں، یہ جواب تو ان لوگوں کو تھا جو آپ کو رسول نہیں مانتے تھے اور جو جانتے تھے (یعنی صحابہ کرام) ان کے سامنے بھی آپ نے متعدد بار انسان ہونے کے ناطے سے بشری کمزوریوں کا اعتراف فرمایا تھا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ آپ کا صحابہ کرام کے سامنے بشر ہونے کا کئی باراعتراف اقرار :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو اس میں کچھ کمی بیشی کردی جب سلام پھیرا تو لوگوں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا ’’آپ نے اتنی رکعت پڑھی ہیں“یہ سن کر آپ الٹے پاؤں پھرے قبلہ کی طرف منہ کیا (سہو کے) دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا پھر ہماری طرف منہ کرکے فرمایا: ’’اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آتا تو میں ضرور تمہیں بتا دیتا لیکن بات یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں تو جب میں بھولوں مجھے یاد دلا دیا کرو اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑجائے تو اپنے ظن غالب کے مطابق اپنی نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے اور سہو کے دو سجدے کر لے‘‘ (بخاری، کتاب الصلوۃ۔ باب التوجہ نحو القبلۃ) ٢۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ میں بھی ایک بشر ہی ہوں اور تم آپس میں جھگڑتے ہوئے میرے پاس آتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم میں سے ایک فریق دلائل دینے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہوتا ہے اور میں اس کے دلائل سن کر اسی کے حق میں فیصلہ کردیتا ہوں۔ اب اگر میں کسی فریق کو اس کے بھائی کا کچھ حق دلا دوں تو یاد رکھو میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب موعظۃ الامام للخصوم) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ ٣۔ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ کھجور میں پیوند لگاتے تھے آپ نے پوچھا : ’’یہ کیا کرتے ہو؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: ’’ہم تو ایسا ہی کیا کرتے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہوگا‘‘ لوگوں نے پیوند لگانا چھوڑ دیا تو کھجور پھل کم لائی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں بھی ایک بشر ہی ہوں جب میں تمہیں تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس پر عمل کرو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی آخر آدمی ہی ہوں‘‘ (یعنی مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے) (مسلم۔ کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقالہ، دون ما ذکرہ، من معائش الدنیا علی سبیل الرای) آپ کی شان میں افراط وتفریط کا شکار ہونے والے حضرات :۔ یہ احادیث ہمیں اس لیے درج کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت افراط و تفریط کا شکار ہوگئی کچھ لوگ تو اس بات پر مصر ہیں کہ آپ بشر تھے ہی نہیں بلکہ نور تھے یہ احادیث انھیں کو سمجھانے اور ان پر حجت کے طور پر درج کی گئی ہیں۔ دوسرا فریق جو تفریط کا شکار ہوا تو وہ آپ کو ایک عام انسان کی سطح پر لے آیا اور دلیل یہ دی کہ انما کلمہ حصر ہے حالانکہ انما محض الوہیت اور عبودیت میں امتیاز کا فائدہ دے رہا ہے یعنی رسول اللہ میں الوہیت کا کچھ بھی حصہ نہیں اس سے کمالات نبوت کی نفی مراد نہیں۔ بخاری میں علامات النبوۃ فی الاسلام کے عنوان کے تحت آپ کے سینکڑوں معجزات مذکور ہیں لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عام انسانوں جیسا ایک معمولی انسان سمجھنا انتہائی گستاخی اور سخت نادانی ہے۔ [٩١] یعنی جو شخص اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ ملاقات خوشگوار رہے اسے اللہ سے ڈرتے ہوئے نیک اعمال بجا لاتے رہنا چاہیے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اللہ کی عبادت میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو ایک تو خالصتاً اسی کی عبادت کرے دوسرے اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی تعظیم اور اس سے دعا کے جو طریقے مشروع ہیں وہ کسی دوسرے کے لیے بجا نہ لائے۔